پاکستانی ایسی قوم ہے کہ اس نے ضابطے کے خلاف چلنے کا اٹل معاشرتی ضابطہ بنا رکھا ھے ، اور اچھی نصیحت کرنے والا اس قوم کو ھمشہ برا لگتا ھے۔ نصیحت ھو ، ضابطہ ھو یا قانون ھو ؛ نہ ھی یہ س±ننا چاھتے ھیں نہ ، اس پر چلنا چاھتے ھیں۔کسی سڑک پر جتنا مرضی بڑا بورڈ لگا لیں ، کہ حد رفتار 60 کلومیٹر ھے یا ہارن نہ بجائیں ، آگے ہسپتال یا سکول ھے ، تو اس قوم نے اس کے ا±لٹ ھی چلنا ھے۔
اب سٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر نے ایک ضابطہ بتا کر ایسا کون سا گناہ کر دیا کہ سارا ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑ گیا اور سٹیٹ بنک کو وضاحت کرنی پڑی کہ کھاتے داروں کی رقوم کی انشورنش ھے ، جس سے پانچ لاکھ کا کلیم تو انہیں فوری مل جائیگا اور باقی کی رقم کا طریقہ کار ھے۔ لیکن سٹیٹ بنک کی یہ وضاحت بھی تو ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک کے بیان کی اگلی ہی اپڈیٹ وضاحت ھے ، اور قوم کو یہ سن کر بڑا سکون مل گیا ھے کہ سٹیٹ بنک نے ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک کے بیان کی وضاحت کر دی ھے !!!
پہلی بات تو یہ کہ بنک میں اکاونٹ چاھے دس کروڑ کا بھی ھے اس کا انشورنس کلیم پانچ لاکھ ہی ھے ، سٹیٹ بنک کی وضاحت کے بعد وہ کوئی بڑھ نہیں گیا۔ البتہ اکاونٹ ہولڈرز کو یہ انفرمیشن فراھم کر دی گئی ھے کہ بنک دیوالیہ ھونے یا بند ھونے کی صورت میں پانچ لاکھ سے زائد رقم کے اکاونٹ ہولڈر اپنا کلیم لیکر سٹیٹ بنک کے پاس یا سٹیٹ بنک کے خلاف نہیں جا سکتے ،، وہ اپنا کلیم لیکر بنکنگ کورٹ یا بنکنگ محتسب کے پاس جائینگے۔ جیسے کوئی اکاونٹ ھولڈر اگر بنک سے 15 لاکھ مالیتی کا کوئی میڈیم سائز لاکر لیکر اس میں دو کروڑ کا سونا رکھ دے تو بنک کسی حادثے کی صورت میں دو کروڑ کا نہیں بلکہ صرف پندرہ لاکھ ہی کا ذمہ دار ھوتا ھے۔
دوسری بات یہ کہ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک کے بیان کے بعد ھونے والے واویلے کے درمیان جو اصل بات تھی وہ تو کہیں چ±ھپ کر ہی رہ گئی ھے ، کہ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک کو یہ بیان دینا کیوں پڑا تھا۔ اس سارے ماملے میں اصل انکشاف تو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیرمین سلیم مانڈی والا کا یہ سوال تھا کہ پاکستانی بنکوں کے کھاتے داروں کی مجموعی رقوم 26 ٹریلین تک بڑھ چکی ھے ، اتنی بڑی رقوم اگر کسی کاروبار یا سٹاک مارکیٹ میں انوسٹ ھوتی تو کئی گنا زائد منافع ھو سکتا تھا اور بنکوں کے پاس کھاتے داروں کی ان رقوم کا تحفظ کیا ھے۔ جس پر ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک کا بیان آیا کہ وہ صرف پانچ لاکھ کا انشورنس کلیم دے سکتے ھیں۔ پانچ لاکھ مالیت کا یہ کلیم بھی پانچ سال قبل ہی مقرر ھوا ھے ، اس سے پہلے تو یہ رقم بھی ڈھائی لاکھ ہی کے قریب تھی۔ 2018 ءمیں جب کچھ بنک فروخت ھوئے یا کسی اور بنک میں ضم ھو گئے تو کھاتے داروں کے تحفظ کے لیے سٹیٹ بنک نے ایک ڈپازٹ پروٹیکشن کارپوریشن بنائی تھی۔ ا±س ڈی پی سی کا ھیڈ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک ہی ھوتا ھے۔
اب بات کو کچھ متوازن کرنے کے لیے بظاہر یہ تو اعدادوشمار جاری کر دئیے گئے ھیں کہ بنکوں کے 94 فیصد اکاونٹ ھولڈر پانچ لاکھ مالیت کے اکاونٹ والے ھی ھیں اور اس سے زائد رقم کے کھاتے داروں کی تعداد صرف 6 فیصد ھے۔ یعنی پھر ملک کا تمام سرمایہ بھی صرف چھ فیصد لوگوں کے پاس ھے ؟ بنکینگ کا ھی ایک کاروباری اصول ھے کہ اپنے تمام انڈے ایک ھی ٹوکری میں نہ رکھے جائیں کہ نقصان ھونے پر سارا ھی نقصان ھو جائے ، اسی لیے تمام انڈوں کو الگ الگ ٹوکریوں میں رکھا جائے یعنی تمام رقم کی سرمایہ کاری ایک ھی جگہ پر نہ کر دی جائے۔ تو پانچ لاکھ کے اکاونٹ ھولڈر کی تو کل کائنات ھی وہ پانچ لاکھ ھوں گے پھر ا±نہیں بھی اسے مختلف بنکوں میں ہی رکھنا چاھئیے۔
اس سارے تناظر میں اکاونٹ ھولڈر کے لیے جو اصل غور طلب بات ھے ، وہ پہلے تو یہ کہ اکاونٹ کھلواتے وقت کیا کبھی انہوں نے یہ چیک کیا ھے کہ جس بنک میں وہ اکاونٹ کھلوانے لگے ھیں ، اسکی سٹیٹ بنک کے پاس مالیت کتنی ھے ، اور اس بنک کی مارکیٹ ویلیو کیا ھے۔ کسی بھی سرمایہ دار کے لیے دوسری غور طلب بات یہ ھونی چاھئیے کہ وہ جو رقم بنک میں رکھ رھے ھیں ، اس وقت ان کی اس رقم کی مارکیٹ ویلیو کیا ھے اور چھ ماہ یا ایک سال کے بعد اس رقم کی مارکیٹ ویلیو کیا ھو گی ؟ بالفرض اگر وہ ایک سال میں ایک لاکھ پر 12 ہزار منافع بھی وصول کر لیں تو کیا اس ایک لاکھ کی مارکیٹ ویلیو ایک سال بعد بھی ایک لاکھ ھی ھے یا 20 ھزار کم ھو چکی ھے اور اگر انہوں نے سال میں بارہ ہزار منافع بھی بنک سے لے لیا ھے اور سال کے بعد اس ایک لاکھ کی مارکیٹ ویلیو 80 ہزار ھے تو وہ بجائے منافع کہ 8 ہزار کا ا±لٹا نقصان کر چکے ھیں۔ اور بنک اسی رقم سے 20 ہزار کما چکا ھے۔ کیونکہ بنکوں کا صرف ایک ہی کاروبار ھے کہ ، کم سود پر رقوم لیکر آگے زیادہ سود پر فراھم کر دینا۔سٹیٹ بنک ھی کی 2020ءکی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی بنکوں نے ایک ہزار 9 سو ارب روپے کی مجموعی سرمایہ کاری پر 670 ارب روپے کامجموعی منافع کمایا تھا۔ لیکن سابق گورنر سٹیٹ بنک شاہد کاردار کے ایک بیان کے مطابق ملک میں اس وقت زیر گردش کرنسی 6 ہزار 7 سو ارب روپے تھی۔ پھر بنکوں کے پاس زیرگردش نوٹوں کی مالیت صرف ایک ہزار نو سو ارب روپے تھی تو باقی پیسہ ملک کے اندر کہاں تھا ، اور کس کاروبار میں لگا ھوا تھا ؟
پاکستانی ، جی ڈی پی کے مقابلے میں بچتوں کی شرح بہت کم ھے ، جس کی وجہ کھاتے داروں کی رقوم پر قلیل منافع اور مسلسل افراط زر سے بنکوں میں پڑی رقوم کا ڈالر کے مقابلے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ھوتے جانا ھے۔
سٹیٹ بنک کے نئے قوانین کے مطابق تو ایف آئی اے اور امیگریشن والے بھی سٹیٹ بنک کی کسی پالیسی کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتے حتی کہ حکومت بھی سٹیٹ بنک سے قرضہ نہیں لے سکتی ، تو کسی عام بنک کے دیوالیہ ھو جانے پر بھی سٹیٹ بنک کے خلاف پانچ لاکھ کی رقم سے زیادہ کا کلیم نہیں کیا جا سکتا زیادہ رقم کے کلیم کا مطالبہ لیکر بنکینگ کورٹ ھی جا سکتے ھیں اور دیوالیہ کے قانون کے مطابق جسے سٹیٹ بنک دیوالیہ قرار دیکر بند کر دے اس کے لین دین کا تمام عمل بھی منجمد ھو جاتا ھے۔ اور آخری بات یہ کہ سٹیٹ بنک نے ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی بھی پالیسیاں بنانی ھوتی ہیں۔ اس میں کتنی کامیابی ھو رھی ھے یہ عوام بہتر جانتے ہیں۔