گورننس کی مضبوطی کی جانب ٹھوس اقدامات

پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور دیگر سرکاری محکمے غیرقانونی سرگرمیوں کیخلاف کارروائیاں پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھیں گے تاکہ وسائل کی چوری اور ان سرگرمیوں کی وجہ سے ملک کو ہونیوالے معاشی نقصانات کو روکا جا سکے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے گزشتہ روز اپنے دورہ¿ کراچی کے موقع پر نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کے ہمراہ صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی اور خطاب کیا۔ ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان‘ سندھ کے کچے کے علاقے میں اپریشن‘ سی پیک‘ نان سی پیک اور پرائیویٹ پراجیکٹس پر کام کرنیوالے غیرملکی شہریوں کی سکیورٹی‘ غیرقانونی مقیم غیرملکی باشندوں کی ملک واپسی‘ غیرملکی کرنسی کو ریگولرائز کرنے کے اقدامات‘ سندھ میں آئی ایف سی کے اقدامات پر پیشرفت اور گرین سندھ کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ آرمی چیف نے تاریخی اقدامات کے استفادے کیلئے تمام متعلقہ محکموں کے مابین ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔ اجلاس کے شرکاءنے اس بات کا اعادہ کیا کہ ریاستی ادارے‘ سرکاری محکمے اور عوام صوبے کی ترقی اور خوشحالی کیلئے متحد ہیں۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی ملک کی اچھی گورننس ہی اقوام عالم میں اسکے بہتر اور مثبت تشخص اور اسکی آزادی و خودمختاری کے مضبوط ہاتھوں میں محفوظ ہونے کی ضمانت بنتی ہے۔ گورننس کی مضبوطی کیلئے بہرحال ریاستی‘ انتظامی ادارے بالخصوص سکیورٹی ادارے حکومت کے معاون ہوتے ہیں جس کیلئے پاکستان کے آئین میں بھی حکومت کی معاونت کے حوالے سے سکیورٹی اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔ اگر یہ ذمہ داریاں آئین کے تقاضوں کے مطابق جانفشانی سے ادا کی جائیں تو سسٹم اور ملک کی سلامتی کو کسی قسم کا اندرونی یا بیرونی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ ہماری ارضِ وطن کو شومئی قسمت سے شروع دن سے مختلف چیلنجوں کا سامنا اور سلامتی کو خطرات لاحق رہے ہیں۔ ہندوستان کی کوکھ سے جنم لینے کے باعث پاکستان کو ہندو لیڈر شپ نے کبھی دل سے قبول نہیں کیا اور وہ اسکی سلامتی کمزور کرنے کے درپے ہو گئے تاکہ یہ بالآخر مجبور ہو کر پھر ہندوستان کی گود میں آگرے۔ ہندوﺅں کا یہ خواب تو شرمندہ تعبیر نہیں ہو پایا البتہ انہوں نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پاکستان پر مسلط کی گئی تین جنگیں‘ سانحہ سقوط ڈھاکہ‘ آبی دہشت گردی‘ ایٹمی صلاحیتیں حاصل کرنے کی پاداش میں پاکستان پر عالمی اقتصادی پابندیاں اور پاکستان کی سرزمین پر اب تک جاری گھناﺅنی دہشت گردی کے واقعات انہی بھارتی سازشوں کا شاخسانہ ہے جبکہ ان سازشوں کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کیلئے بھارت کو پاکستان کے بیرونی دشمنوں کی جانب سے ہی نہیں‘ ملک کے اندر موجود اسکے ایجنٹوں اور مفاد پرست سیاست دانوں کی کمک بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ ان سازشوں کے باعث ہی ملک سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام اور غیریقینی کی صورتحال سے دوچار رہا ہے اور ایسے سازشی عناصر کی سرکوبی کیلئے حکومتی رٹ کے کمزور ہونے کا تاثر اجاگر ہوتا رہا ہے۔ 
ایک خودمختار ایٹمی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کیلئے اسکی ریاستی انتظامی اتھارٹی کے کمزور ہونے کا تاثر انتہائی سنگین نتائج کی طرف دھکیل سکتا ہے جس کیلئے بھارت اور دوسرے ملک دشمن عناصر ہمہ وقت تاک میں رہتے ہیں اس لئے ان معروضی حالات میں ریاستی انتظامی اتھارٹی کی بنیادی ذمہ داری اپنی گورننس کا سسٹم مضبوط اور مستحکم بنانے کی بنتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں در آنیوالی بلیم گیم کی سیاست اور اس سے جنم لیتے منافرتوں کے کلچر نے سسٹم ہی نہیں‘ ملک کی سلامتی کیلئے بھی باربار خطرات پیدا کئے ہیں۔ یقیناً کسی ملک کے ایسے ہی حالات میں ملک کے بدخواہوں کو ملک کی بقاءو سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے اور پھیلانے کا آسان موقع دستیاب ہوجاتا ہے اور ایسے عناصر سیاسی‘ مذہبی جماعتوں میں گھس کر اور پریشر گروپ بنا کر ریاست کی سلامتی کیخلاف اپنے مذموم عزائم و مقاصد پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ ان سازشوں کے نتیجہ میں سسٹم کے کمزور ہونے کا تاثر اجاگر ہوتا ہے تو اسی تناظر میں ماورائے آئین اقدام کے ذریعے منتخب جمہوری نظام کو الٹانے کے راستے بھی ماضی میں نکلتے رہے ہیں۔ 
یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے بدخواہوں کی سازشوں کے باوجود ملک کا سسٹم ٹریک پر ہے جس کیلئے ملک کی عسکری قیادتوں کے آئین اور سسٹم کے ساتھ کھڑا ہونے کے عہد نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور اس تناظر میں ہی ملک کی سلامتی کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے عہدہ برا¿ ہونے کیلئے عساکرِ پاکستان پر بھی بھاری ذمہ داری آجاتی ہے جنہیں ملک کی سرحدوں کے تحفظ و دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی خلفشار پر قابو پانے کا فریضہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان درپیش چیلنجوں کی وجہ سے ملک میں اقتصادی عدم استحکام بھی در آیا ہے اور ماضی قریب تک ملک کی معیشت کا دیوالیہ نکلتا نظر آرہا تھا چنانچہ ملک کی عسکری قیادتیں جہاں ملک کی سلامتی کے درپیش چیلنجوں سے عہدہ برا¿ہو رہی ہیں‘ وہیں ملک کی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں بھی ریاست و حکومت کی معاون بن رہی ہیں اور ملک کی معیشت کو برباد کرنے میں جن حکومتی‘ انتظامی‘ ادارہ جاتی اور دیگر عناصر نے کلیدی کردار ادا کیا ہے‘ انہیں قاعدے قانون کی عملداری کے ماتحت کرنے کیلئے بھی آج ملک کی عسکری قیادتیں بالخصوص آرمی چیف جنرل عاصم منیر متحرک اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں ماضی کی تمام مصلحتوں اور قباحتوں سے باہر نکل کر گزشتہ چار سے زائد دہائیوں سے ملکی معیشت پر بوجھ بنے افغان مہاجرین کو انکے ملک واپس بھجوانے کا اٹل فیصلہ کیا گیا ہے جن کی وجہ سے ملک کی سرزمین جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی بھی آماجگاہ بنی رہی ہے۔ 
اس کیلئے گزشتہ ہفتے نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیرصدارت قومی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ٹھوس فیصلے کئے گئے اور غیرقانونی مقیم غیرملکی باشندوں کو ملک چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی گئی جس پر عملدرآمد کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ یہ اٹل فیصلے بھی اجلاس میں شریک عسکری قیادتوں بالخصوص آرمی چیف کے مضبوط عزم کے اظہار کے باعث ممکن ہوئے جبکہ اب سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی آرمی چیف کے ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے ٹھوس عندیہ پر سندھ کو ہر قسم کے جرائم پیشہ عناصر اور غیرقانونی مقیم غیرملکی باشندوں سے پاک کرنے کے عملی اقدامات اٹھانے کا ٹھوس فیصلہ کیا گیا۔ اس سے لامحالہ گورننس مضبوط ہو گی تو قانون اور امن کو چیلنج کرنیوالے عناصر کی بھی ٹھوس انداز میں سرکوبی ہو پائے گی اور اقوام عالم میں بھی ہماری آزادی و خودمختاری پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرا¿ت نہیں ہوگی۔ بے شک گورننس کی مضبوطی ہی ہماری آج کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن