گلزار ملک
صرف چند سالوں میں وقت کتنی تیزی سے بدل کر کیا کیا رنگ دکھا رہا ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اس وقت تقریبا ہر شخص پریشان ہے غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا اس قدر مشکل ہو گیا ہے کہ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ غریبوں کے لیے پہلے صرف دو وقت کی روٹی کمانا ہی مشکل تھا مگر اب تو ہر لحاظ سے ہر دور میں ہر طرح سے گزر بسر کرنا مشکل ہو چکا ہے اور آج کے دور میں دو وقت کی روٹی کمانے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ پٹرول وہ بھی روز بروز غریب کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے ایسے حالات میں اب تو موٹر سائیکل رکشہ والوں نے پٹرول کی جگہ پر گدھا لگا لیا ہے لاہور کی سڑکوں پر اب موٹر سائیکل رکشہ کو گدھا کھینچتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے اور اب اس طرح تانگہ کا دور بھی پھر سے بحال ہونا شروع ہو گیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ لکڑی کے بڑے بڑے ٹائروں والا تھا اور اب یہ چنگچی رکشے میں گھوڑے کی جگہ گدھا لگا دیا گیا ہے شکل تقریبا ایک جیسی ہی ہے مسافر بھی ایسے رکشے میں سفر کرنے کو بہت زیادہ پسند کر رہے ہیں جس کی ایک رپورٹ مختلف ٹی وی چینل پر بھی چل چکی ہے اور ساتھ ہی رکشے کا ڈرائیور کا کہنا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں میرا گدھا صرف 100 روپے کی خوراک کھاتا ہے اور میں سارا دن اسے جوئے رکھتا ہوں اور اپنے بچوں کی روٹی کماتا ہوں جس سے میری اور میرے اس گدھے کی گزر بسر صحیح ہو رہی ہے پٹرول میں پورا نہیں کر سکا کسی بھی حال میں جب میں رکشے کو پٹرول پر چلاتا تھا تو مجھے بہت کم بچت ہوتی تھی جس سے میرے گھر کا کچن بھی بڑی مشکل سے چلتا تھا کیونکہ سارے پیسے تو پیٹرول میں لگ جاتے تھے ایسے حالات پر ہماری ایک بزرگ صحافی صاحب جن کا تعلق صوبائی دارالحکومت لاہور کے نواحی قصبہ مانگا منڈی سے ہے کے اس معروف سینیئر بزرگ صحافی ملک ممتاز حسین سے بھرپور نشست ہوئی ان کی باتیں سننے کے بعد یقین نہیں آتا کہ کبھی وطن عزیز میں ایسا وقت بھی رہا ہوگا جس سے ہر کوئی خوشحال تھا انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک صرف ایوب خان کا دور اچھا تھا جس میں غریب اور امیر سب کے سب خوشحال تھے آپ کی عمر اس وقت 72 سال ہو چکی ہے اور گزشتہ 40 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ مہنگائی نے توبہ توبہ کروا دی ہے اس مہنگائی کی وجہ سے ہر چیز کی بے برکتی ہو گئی ہے انہوں نے 1968 کے دور کی ایک بات سناتے ہوئے کہا کہ ایک ہوٹل والے سے 30 روپے ماہانہ طے ہوا تھا جس میں ہم دو وقت کی روٹی کھایا کرتے تھے وہ بھی پیٹ بھر کر آٹھ آنے کلو دودھ وہ بھی خالص بکرے کا گوشت چار روپے کلو بیف گوشت ڈیڑھ روپے کلو ایک روپے کے آٹھ نان انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب میری عمر 10 12 سال کی تھی تو اس وقت 10 روپے من گندم اور گڑ کا ریٹ 10 روپے من ہوا کرتا تھا بہرحال یہ وہ باتیں ہیں جس پہ ہمیں خود بھی یقین نہیں آتا اور اب ہم سے سننے والے آج کے بچے بھی اس پہ یقین نہیں کرتے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ایک تو اس بے لگام سوشل میڈیا نے بھی ہماری بربادی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے سوشل میڈیا کی افادیت سے انکار نہیں کرتا مگر ہم نے اس کی افادیت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے غلط طریقے سے اس کا استعمال کیا لوگوں کے اندر اس زبردست پریشان کن حالات کے باوجود ہم نے مزید پریشانیاں پیدا کرنے کے لیے سچ اور جھوٹ وہ سب کچھ جو آپ ہر روز دیکھتے اور سنتے ہیں اس سوشل میڈیا پر کیا آخر میں انہوں نے کہا کہ اب ہم سب کی اسی میں ہی بھلائی ہے کہ اللہ اور اس کے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رسی کو مضبوطی سے تھام لیں جس کا ہمیں حکم ملا ہے انسان کی زندگی میں اس وقت تک سکون میسر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ اور اس کے دین پر عمل پیرا ہو کر جھوٹ فریب کا گلا گھونٹ کر اچھی طرح سے اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ان شائ اللہ مہنگائی بھی ختم ہو جائے گی بے سکونی بھی ختم ہو جائے گی اور یہ بے لگام سوشل میڈیا پر ہونے والا سب کچھ بھی ختم ہو کر رہ جائے گا بات صرف غور و فکر اور عمل کی ہے۔
”ایک بزرگ صحافی کی باتیں“
Oct 08, 2023