”ایک بزرگ صحافی کی باتیں“

Oct 08, 2023

گلزار ملک

گلزار ملک
 صرف چند سالوں میں وقت کتنی تیزی سے بدل کر کیا کیا رنگ دکھا رہا ہے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اس وقت تقریبا ہر شخص پریشان ہے غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا اس قدر مشکل ہو گیا ہے کہ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ غریبوں کے لیے پہلے صرف دو وقت کی روٹی کمانا ہی مشکل تھا مگر اب تو ہر لحاظ سے ہر دور میں ہر طرح سے گزر بسر کرنا مشکل ہو چکا ہے اور آج کے دور میں دو وقت کی روٹی کمانے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی دکھ کی بات تو یہ ہے کہ پٹرول وہ بھی روز بروز غریب کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے ایسے حالات میں اب تو موٹر سائیکل رکشہ والوں نے پٹرول کی جگہ پر گدھا لگا لیا ہے لاہور کی سڑکوں پر اب موٹر سائیکل رکشہ کو گدھا کھینچتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے اور اب اس طرح تانگہ کا دور بھی پھر سے بحال ہونا شروع ہو گیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ لکڑی کے بڑے بڑے ٹائروں والا تھا اور اب یہ چنگچی رکشے میں گھوڑے کی جگہ گدھا لگا دیا گیا ہے شکل تقریبا ایک جیسی ہی ہے مسافر بھی ایسے رکشے میں سفر کرنے کو بہت زیادہ پسند کر رہے ہیں جس کی ایک رپورٹ مختلف ٹی وی چینل پر بھی چل چکی ہے اور ساتھ ہی رکشے کا ڈرائیور کا کہنا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں میرا گدھا صرف 100 روپے کی خوراک کھاتا ہے اور میں سارا دن اسے جوئے رکھتا ہوں اور اپنے بچوں کی روٹی کماتا ہوں جس سے میری اور میرے اس گدھے کی گزر بسر صحیح ہو رہی ہے پٹرول میں پورا نہیں کر سکا کسی بھی حال میں جب میں رکشے کو پٹرول پر چلاتا تھا تو مجھے بہت کم بچت ہوتی تھی جس سے میرے گھر کا کچن بھی بڑی مشکل سے چلتا تھا کیونکہ سارے پیسے تو پیٹرول میں لگ جاتے تھے ایسے حالات پر ہماری ایک بزرگ صحافی صاحب جن کا تعلق صوبائی دارالحکومت لاہور کے نواحی قصبہ مانگا منڈی سے ہے کے اس معروف سینیئر بزرگ صحافی ملک ممتاز حسین سے بھرپور نشست ہوئی ان کی باتیں سننے کے بعد یقین نہیں آتا کہ کبھی وطن عزیز میں ایسا وقت بھی رہا ہوگا جس سے ہر کوئی خوشحال تھا انہوں نے بتایا کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک صرف ایوب خان کا دور اچھا تھا جس میں غریب اور امیر سب کے سب خوشحال تھے آپ کی عمر اس وقت 72 سال ہو چکی ہے اور گزشتہ 40 سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ مہنگائی نے توبہ توبہ کروا دی ہے اس مہنگائی کی وجہ سے ہر چیز کی بے برکتی ہو گئی ہے انہوں نے 1968 کے دور کی ایک بات سناتے ہوئے کہا کہ ایک ہوٹل والے سے 30 روپے ماہانہ طے ہوا تھا جس میں ہم دو وقت کی روٹی کھایا کرتے تھے وہ بھی پیٹ بھر کر آٹھ آنے کلو دودھ وہ بھی خالص بکرے کا گوشت چار روپے کلو بیف گوشت ڈیڑھ روپے کلو ایک روپے کے آٹھ نان انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب میری عمر 10 12 سال کی تھی تو اس وقت 10 روپے من گندم اور گڑ کا ریٹ 10 روپے من ہوا کرتا تھا بہرحال یہ وہ باتیں ہیں جس پہ ہمیں خود بھی یقین نہیں آتا اور اب ہم سے سننے والے آج کے بچے بھی اس پہ یقین نہیں کرتے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ایک تو اس بے لگام سوشل میڈیا نے بھی ہماری بربادی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے سوشل میڈیا کی افادیت سے انکار نہیں کرتا مگر ہم نے اس کی افادیت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے غلط طریقے سے اس کا استعمال کیا لوگوں کے اندر اس زبردست پریشان کن حالات کے باوجود ہم نے مزید پریشانیاں پیدا کرنے کے لیے سچ اور جھوٹ وہ سب کچھ جو آپ ہر روز دیکھتے اور سنتے ہیں اس سوشل میڈیا پر کیا آخر میں انہوں نے کہا کہ اب ہم سب کی اسی میں ہی بھلائی ہے کہ اللہ اور اس کے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رسی کو مضبوطی سے تھام لیں جس کا ہمیں حکم ملا ہے انسان کی زندگی میں اس وقت تک سکون میسر نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ اور اس کے دین پر عمل پیرا ہو کر جھوٹ فریب کا گلا گھونٹ کر اچھی طرح سے اس کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ان شائ اللہ مہنگائی بھی ختم ہو جائے گی بے سکونی بھی ختم ہو جائے گی اور یہ بے لگام سوشل میڈیا پر ہونے والا سب کچھ بھی ختم ہو کر رہ جائے گا بات صرف غور و فکر اور عمل کی ہے۔

مزیدخبریں