بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے ہفتے کے روز صحافیوں کو بتایا کہ حماس اسرائیل اور علاقائی ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے کسی بھی ممکنہ نتیجے کو پٹڑی سے نہیں اتارے گی لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس عمل میں ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔حماس حملے میں لبنان کی حزب اللہ تنظیم کے ملوث ہونے کے امکان کے بارے میں سوال پر اہلکار نے کہا کہ بائیڈن نے واضح کیا ہے کہ دوسری جماعتوں کو اس میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔اہلکار نے کہا کہ امریکی فوجی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے اسرائیل کے ساتھ بات چیت "بہت زیادہ جاری ہے۔"عہدیدار نے اشارہ کیا کہ اتوار کے اوائل میں واشنگٹن کی طرف سے ایک اعلان ممکن تھا لیکن یہ بھی ذکر کیا کہ کانگریس کی صورتحال - جہاں ایوانِ زیریں میں فی الحال لیڈر کی کمی ہے - معاملے کو پیچیدہ بنا دے گی۔انہوں نے کہا، "غالباً یہاں کانگریس کا کردار ہے اور ایوان کے اسپیکر کے بغیر یہ ایک نادر صورتحال ہے جس میں ہمیں کام کرنا ہو گا۔اہلکار نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا ایران نے براہِ راست حملے کی حمایت کی ہے لیکن مزید کہا کہ "ہم اس معاملے کا بہت قریب سے جائزہ لیں گے" اور کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس کو ایران کی طرف سے فنڈنگ اور اسلحہ فراہم کیا جاتا ہے۔اہلکار نے کہا کہ امریکہ ایران سے جواب طلبی کرے گا اور حماس کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو ایک بین الاقوامی دہشت گرد گروہ کے ساتھ ہوتا ہے۔اہلکار نے یہ بھی کہا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ تشدد مغربی کنارے میں نہ پھیلے۔