قلم زاریاں
محمد الطاف طاہر دومیلوی
altaftahir333@gmail.com
سیاسی افق پر گرج چمک کسی طوفان کا اشارہ کرتے دکھائی دے رہی ہے اور سیاسی درجہ حرارت بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور ایک طرف زمام اقتدار پر براجمان اشرافیہ مورچہ زن اور دوسری طرف حزب اختلاف تابڑ توڑ حملہ آور ہے سیاسی محاذ پر کشیدگی کا یہ عالم ہے کہ دور دور تک جنگ بندی دکھائی نہیں دیتی جس سے سیاسی عدم استحکام اور رواداری کا فقدان بڑھ رہا ہے عوام پریشان ،اس کا جینا مہنگائی نے دوبھر کررکھا ہے اور کمر توڑ گرانی نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں دوسری طرف نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے روز گار کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے اور نوکری اس سے کوسوں دور ہے اور یہ بے چارا اپنی قسمت کو برا بھلا کہنے پر مجبور ہے طالب علم جسمانی سزا اور نصاب کے یکساں نہ ہونے پر آہ و فغاں ہے استادسکولوں کی نجکاری پر سراپا احتجاج ہے ،کسان اپنے حقوق کے لئے برسر پیکار ہے سیاسی جماعتیں حکومت کے خلاف محو احتجاج ہیں ہر طرف ہر سو چور چور کی صدائیں اور ڈاکو ڈاکو کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اس ماحول میں قلم زاریاں نہ کرے تو پھر کیا کرے آخر اس نے بھی تواپنا کردار ادا کرنا ہے قلم کی زکوٰ? دینی ہے اور ان سیاسی منظر وپس منظر پر آہ و زاریاں کرنی ہے قیام پاکستان سے اب تک سیاسی جماعتوں کا کردار کوئی قابل رشک نہیں رہا یہ محاذ آرائی ان کا طرز سیاست رہا جس سے ملک وقوم مسائل ومصائب کے گرداب میں ایسے پھنسے کہ آج تک وہی رونا دھونا سنائی دیتا ہے سیاسی جماعتوں کا وجود جمہوریت کے لئے ناگزیر ہوتا ہے اور جمہوریت کی کامیابی بھی انہی کی بدولت ہوتی ہے یہ رائے عامہ تشکیل دینے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں سیاسی جماعتوں کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام کو اہم قومی مسائل سے آگاہ کریں لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بیتی ہے یہ عوام میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت گالم گلوج جلا جلاﺅ گھیراﺅ اور توڑ پھوڑ ہر اکسا کر اپنے مفادات حاصل کرتی ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے سیاسی جماعتوں اپنے منشور اور ترقیاتی پروگرام کا اعلان کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی کردار کشی کرنے میں محو ہیں اس لئے تو وطن عزیز سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے سیاسی جماعتیں جمہوریت کی جان اور روح ہوا کرتی ہیں اور جمہوری نظام کو کامیابی کے ساتھ چلانے میں ان کا کردار بڑا اہم ہے سیاسی جماعتوں کے بغیر جمہوریت غیر فعال ہے لیکن جمہوری نظام کو انتشار اور محاز آرائی سے بچانا بھی سیاسی جماعتوں کی زمہ داری ہے لیکن صد افسوس جب بھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا پیش خیمہ سیاسی جماعتوں ہی قرار دی گئی جو منتخب جمہوری حکومت کو گرانے میں پیش پیش رہیں اور آمریت کے بادل سیاسی افق پر مںڈلاتے رہے اور برسوں تک انہوں نے جمہوری موسم اور رت آنکھوں سے اوجھل رہی کئی لیڈر سیاسی جماعتوں کی تحریک اور پھر آمریت کے شکار ہوئے لیکن ہمارے سیاستدان ماضی سے سبق سیکھنے میں قاصر رہے اس وقت وطن عزیز ایک بار پھر محاذ آرائی اور احتجاج کی لپیٹ میں ہے سیاسی جماعتوں میں رواداری کا فقدان دکھائی دیتا ہے حکومت اپوزیشن کے احتجاجی مظاہرہ کی روک تھام میں لگی ہوئی ہے اور اپوزیشن اقتدار پر براجمان اشرافیہ کے خلاف مورچہ زن ہے سیاسی منظر نامے دھندلاہٹ کا شکار ہے عوام پریشان ہیں مہنگائی بے روز گاری معیشت کی زبوں حالی تعلیم وصحت کے مسائل نے لوگوں کو مشکلات سے دو چار کر رکھا ہے لیکن سیاسی جماعتیں سڑکوں پر پارٹی منشور سے بے نیاز حکومت پرلفظی گولہ باری کرنے میں سرگرم عمل ہیں عجب رت ہے یہ سیاسی صورت حال ہے دوسری طرف مکار دشمن پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ذریعے اس کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں لگا ہوا ہے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال ہورہی ہے پاک فوج دہشتگردوں کے خلاف برسر پیکار ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے وطن عزیز سے دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے پاک فوج کا کردار لائق تحسین ہے سیاسی جماعتوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے سیاسی رواداری اور استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے جمہوریت کے فروغ ترقی اور کامیابی کے لئے سیاسی جماعتوں کا وجود ضروری ہے مگر موجودہ کردار اصلاح احوال کا تقاضا کرتا دکھائی دیتا ہے سیاسی افق پر مںڈلاتے طوفانی ہواو¿ں کا رخ موڑنے کے لئے برداشت رواداری وقت کی ضرورت اور تقاضا ہے سیاسی محاذ آرائی جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں آئیں تلخیاں بھلائیں مل بیٹھ کر ملک وقوم کے مفاد کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ماضی سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں آخر کب تک ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے رہیں گے قومی مفاد کا تحفظ قومی سلامتی امن خوشحالی ہماری ترجیحات ہونی چاہیں