سمندر،جزیرے اور جدائیاں 

      آواز خلق

 فاطمہ ردا غوری
معلوم نہیں کیوں؟ لیکن ایک یقین سا ہے کہ جس بچے کی تربیت میں اسکے دادا، نانا یا نانی دادی میں سے کسی بھی بزرگ کا عمل دخل شامل ہو اس بچے کی زندگی پر گہرے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جو بچہ ان بزرگ ہستیوں میں سے کسی ایک کے بھی سینے پر سر رکھے رات گئے کسی پہر سو جاتا ہے ۔۔
یقین رکھیے کہ اس کے روشن مستقبل کا ستارہ اسی پہر جاگ اٹھتا ہے ایک بزرگ کا وجود اسکی آنے والی زندگی کے لئے ایسی بنیاد ثابت ہوتا ہے جس سے اسکی شخصیت کی پختگی اور تابناکی عبارت ہوتی ہے !!!
مبارک ہو !دنیائے اردو نثر و شاعری کو ”سمندر ،جزیرے اور جدائیاں “ کی صورت ایک اور شاندار اور پروقار تحفہ مل چکا ہے جو یقینا مدتوں پڑھنے والوں کے ذہن و دل کے لئے راحت و آسودگی کا باعث بنے گا اس وقت میری آنکھوں کے سامنے اس نئی پرتاثیر اور پر وقار کتاب کا ٹائیٹل پیج موجود ہے اور محو حیرت ہوں کہ فقط ٹائٹل ہی آنکھوں کے لئے اس قدر ٹھنڈک کا سامان لئے ہوئے ہے تو مکمل کتاب کا عالم کیا ہو گا؟کتاب کا حصہ جو کہ اسوقت زیر موضوع ہے اس میں مصنف نے پوتوں ،نواسوں ،نواسیوں اور پوتیوں کے حوالے سے لکھی گئی ان تحریروں کو شامل کیا ہے جو کہ پڑھنے والوں کے لئے بے حد پر کشش اور معروف و مقبول ثابت ہوئیں جن بچوں کا تذکرہ کتاب میں شامل ہے وہ آنے والے زمانے میں یقینا اپنی دلچسپی اور یقینی قابلیت کے مطابق اعلی مناصب پر فائز ہوں گے اور اپنے خانوادے کی طرح پاکستان کے لئے اعزاز ثابت ہوں گے کہ بلاشبہ ”این خانوادہ ہمہ آفتاب است “
آنے والے زمانے میں یہ تمام مذکورہ شخصیات فخر سے اس شہرہ آفاق کتاب کا حوالہ دیا کریں گے کہ وہ جس عظیم انسان اور منفرد طرزبیان سے دلوں کو موہ لینے والے لکھاری کی آنکھ کا تارہ ہیں اس نے انکے بچپن میں کس محبت سے انکے ساتھ گزرے وقت کو ، ایک ایک لمحے کو قلمبند کیا ہے شاید وہ اس محبت کا بیان انگریزی کی اصطلاح”heart with the core of“ سے کریں یا وہ اس لگاﺅ کے بیان کے لئے نستعلیق اردو کا محاورہ "اصل زر سے زیادہ اس پرملنے والا سود اچھا لگتا ہے" استعمال کریں بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ پنجابی میں اس محبت کو کچھ اس طرح بیان کریں کہ ” مول نالوں ویاج چنگی“
آج کے ان چھوٹے ٹمٹماتے ستاروں اور مستقبل کی کامیاب و کامران شخصیات پر ان تینوں زبانوں میں محبت کے اظہار کا شبہ اسلئے ہے کیونکہ جو افرادمحترم اظہارالحق صاحب کو جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ان پیارے بچوں کو رات گئے تک کہانیاں سنانے والا یہ انسان انہیں ان تینوں زبانوں سے روشناس کروانے کے لئے پوری قوت کے ساتھ متحرک اور ہمہ تن گوش ہے اور انکی شخصیت سازی میں ایسی بنیاد رکھ چکا ہے جس کے بعد شخصیت نکھر کر سامنے آنا یقینی ہے !!!
مصنف اپنے ایک شعر میں بھی اس حوالے سے کیا خوب فرماتے ہیں کہ 
      لہو روتا ہوں ، تڑپتا ہوں جو یہ سوچتا ہوں 
      کس قدر ہے مجھے محبوب نواسا میرا 
کتاب کا دوسرا حصہ ان تحریروں پر مشتمل ہے جن سے گاﺅں کی مٹی کی مہک آتی ہے وہ دیہی ثقافت دیکھنے کو ملتی ہے جس کا عکس ایک عرصہ ہوا مدھم ہو چکا ہے ان تحریروں میں دیہی زندگی کا وہ سنہرا دور یاد کروانے کی بھرپور سعی نظر آتی ہے جو آنکھوں کو نمناک کردینے کے بعد پھر سے تروتازہ کر دینے کی قوت رکھتی ہے ان تحریروں سے محسوس کیا جا سکتا ہے کہ مصنف اپنی روایات و اقدار سے کس قدر جڑا ہوا ہے !!!
بچوں سے، گاﺅں سے اور کبھی کبھار وطن سے بھی دوری، جب ان تمام دوریوں سے کارہائے زندگی کے پیش نظر بارہا سامنا ہوتا ہے تو ”سمندر ، جزیرے اور جدائیاں “ کے مصنف کے اندر کا منفرد اوربا کمال شاعر کچھ اس طرح بلبلا اٹھتا ہے کہ 
     جدائی بن کے بچھا لی ہے فرش پر اظہار 
     اسی پہ بیٹھ کے روتا ، اسی پہ سوتا ہوں 
ملک ملک گھومنے والے اس حقیقی لکھاری کی زندگی مشاہدات و تجربات سے بھرپور ہے بہت سی چیزیں exploreکرنے کے بعد انکی شخصیت دور سے دیکھنے والوں کو الٹرا ماڈرن دکھائی دیتی ہے لیکن جو لوگ خوش قسمتی سے انہیں جانتے ہیں وہ آگاہ ہیں کہ انکی روح کس طرح اپنے گاﺅں ، آباﺅ اجداد ، روایات و اقدار میں جکڑی ہوئی ہے اس حوالے سے اپنے ایک شہرہ آفاق شعر میں خود فرماتے ہیں کہ
      یہ سنگ مرمر ، یہ شاخ انگور ، یہ کنیزیں
      مگر کوئی کھینچتا ہے مٹی کے گھر کی جانب 
ان کے حلقہ احباب میں شامل لوگ آگاہ ہیں کہ یہ تحریریں اس وقت لکھی گئیں جب محترم اظہار الحق صاحب بچوں کے فراق اور گاﺅں سے دوری کے جاں گسل تجربات سے گزرے ان ہی تجربات کے بعد لکھی گئیںیہ تحریریں قلم و قرطاس کی مدد سے کئے گئے کتھارسس کا شاخسانہ ہیںبلاشبہ اصل اور سچا لکھاری وہی ہوتا ہے جو کسی تکلیف یا جدائی کی کیفیت میں اپنے آپ کو لکھنے سے روک نہیں پاتا اور جب تک ان کیفیات کے پیش نظر بے ربط ہی سہی کچھ لکھ نہیں لیتا تب تک اسے قرار نہیں آتا ۔۔ معاملہ یہیں رکتا نہیں اس عمل کے بعد وہ لوگ جو ایسے تکلیف دہ تجربات سے گزر رہے ہوں اپنے بچوں سے اپنے جائے پیدائش سے دور ہوں اگر ان تحریروں کو پڑھنے کے بعد انہیں بھی قرار آنے لگے تو گویا تحریر کا حق ادا ہو جاتا ہے اور اس حق کے ادا ہو جانے کاایک زمانہ معترف ہے ۔۔محترم اظہار الحق صاحب کا ایک منفرد طرز کا شعر ہے کہ 
       تم تک نہیں پہنچی خبر میں ہو چکا مسند نشیں 
       اے آسماں نیچے اتر، اٹھ کر کھڑی ہو اے زمیں 
گزارش ہے کہ اس شعر کے معاملے میں کچھ احتیاط برتی جائے کہ آپکے پڑھنے والے، آپ سے عقیدت رکھنے والے آپ کے اعلی و ارفع کام سے جس تواتر کے ساتھ فیض یاب ہو رہے ہیں اگر زمین واقعی سلام کرنے کو اٹھ کھڑی ہوئی تو ہم اس زمین کے باسی کہاں جائیں گے !!! 

ای پیپر دی نیشن