گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
غزہ میں اسرائیلی بربریت اور سفاکیت کو ایک سال مکمل ہو گیا۔ گزشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے اس پر کئی میزائل اور راکٹ فائر کیے گئے تھے کچھ لوگوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ پہل فلسطین نے کی تھی یہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی ہے کیونکہ اسرائیل غزہ پر اور مغربی کنارے پر بار بار حملے کر کے فلسطینیوں کا عرصہ حیات تنگ کیے ہوئے تھا، ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہید ہو چکے تھے اس کا جواب دینے کے لیے فلسطین کی طرف سے بھرپور تیاری کی گئی اور جواب دیا بھی گیا، اس بار اسرائیل اور اس کے پشت پناہ بپھر گئے کہ آخر یہ اتنے طاقتور کیسے ہو گئے کہ ہمارے اوپر اس طرح کے حملے کریں، جس نے اسرائیل کے دفاعی سسٹم کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا اس کے بعد پھر اسرائیل کی طرف سے مکمل تیاری کے ساتھ غزہ پر حملے شروع ہو گئے اور انسانیت کی تمام حدیں عبور کر دی گئیں۔ فلسطینیوں کے لیے گھروں میں جائے پناہ بچی نہ پناہ گزین کیمپوںمیں، سکولوں پر بماری کی گئی ہسپتالوں پر بمباری کی گئی کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں پہ فلسطینی محفوظ ہوتے یا اپنی جان بچا رکھتے ۔اب تک اسرائیلی بربریت میں 45 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں بچے، بوڑھے، خواتین، مریض سب شامل ہیں۔زخمی ہونے والوں کی تعداد 2 لاکھ سے اوپر ہے جبکہ 10 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں۔ خوراک کی شدید کمی ہے، ہسپتال ڈھائے جا چکے ہیں، مریضوں کے لیے ادویات میسر نہیں ہے، بچے دودھ اور بنیادی ضروریات سے یکسر محروم ہیں۔
ایسے میں دنیا کا بہت بڑا حصہ جنگ بندی کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسرائیل جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو بھی مسترد کر دیا گیا جس میں امریکہ نے بھی جنگ بندی کی حمایت کی تھی۔اس طرح کی باقی قراردادیں امریکہ کی طرف سے مسترد ہوتی رہی ہیں۔اسرائیل کی طرف سے چند روزہ عارضی طور پر جنگ بندی کی گئی تھی وہ بھی صرف اس لیے کہ فلسطینیوں کو جہاں کہیں بھی ہیں وہاں پہ ان کو مار ڈالنے کے لیے مزید تیاری کی جا سکے۔ امریکہ اس حوالے سے اسرائیل کی مکمل مدد کر رہا ہے۔ برطانیہ جیسے ممالک بھی اس کے ساتھ ہیں۔امریکہ، برطانیہ،آسٹریلیا، انڈیا سمیت اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے ہو چکے ہیں مگر یہ عوامی سطح پر ہیں، مسلمان ممالک میں بھی اسرائیلی سفاکیت کے خلاف احتجاج ہوئے ہیں مگر مسلمان ممالک متحد نہیں ہے یہ نفاق کا شکار ہیں جس کا فائدہ مسلمان مخالف قوتیں اٹھا رہی ہیں۔اسرائیل کی طرف سے اس جنگ کو غزہ سے نکال کر لبنان، شام، عراق، یمن اور ایران تک پھیلا دیا گیا۔ ایران نے دو مرتبہ اسرائیل پر حملہ کیا اور یہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف دونوں حملے تھے کیونکہ ایک مرتبہ اس نے شام میں ایران کے سفارت خانے پر حملہ کر کے دو ایرانی جرنیلوں کو شہید کر دیا تھا اور دوسرا حملہ ایران پر اسرائیل کی طرف سے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کے لیے کیا گیا تھا اس کا ایران نے جواب دینا ہی تھا۔ہنیہ کی شہادت سے چند روز قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی حادثے میں جان بحق ہوئے تھے اس حوالے سے بھی انگلیاں اسرائیل کی طرف ان دنوں اٹھائی جا رہی تھی۔
اسرائیل نے جس طرح جنگ کا دائرہ کار پھیلا دیا ہے، کئی ممالک سمجھتے ہیں کہ جنگ یہیں تک محدود رہے گی مگر یہ جنگ دنیا میں کسی بھی مسلم ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔جس کا اندازہ تو کیا جا سکتا ہے مگر اگر ادراک نہیں ہے تو مسلمان حکمرانوں کو نہیں ہے جو اسرائیل کی بربریت کو دیکھنے کے باوجود بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔73 ءمیں مصر نے شام اور اردن کو ساتھ ملا کر اسرائیل کا جو حال کیا تھا اسرائیل صفہ¿ ہستی سے مٹتا ہوا نظر ا رہا تھا کہ امریکہ اس کی مدد کو پہنچا اور جنگ بندی کروا کے اسرائیل کو محفوظ کروا لیا۔ اس موقع پر کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا جو مصر کی شرائط پر ہوا تھا۔اسی طرح اگر آج مسلمان ممالک متحد ہو جاتے ہیں تو اسرائیل کو دھول چٹائی جا سکتی ہے مگر کیا کیجیے کہ ایران نے اسرائیل پر اس کی جارحیت کے جواب میں جب میزائل اور راکٹ فائر کی ہے تو اردن کی طرف سے ان میں سے کچھ کو گرا لیا گیا جبکہ مصر نے تنبیہ کی کہ وہ اپنی سرزمین ایسی راکٹ باری کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان اسرائیل کے خلاف کتنے انتشار اور نفاق کاشکار ہیں۔اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ سارے مسلمان ممالک اسی طرح سے متحد ہو جائیں:
بتان رنگ و بو کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
فلسطین میں یہودی کہاں سے آئے یہ تھوڑی سی تاریخ آپ کے سامنے ایک رپورٹ کی صورت میں رکھتا ہوں۔1099 میں پوپ اربن دوم کی قیادت میں عیسائیوں نے صلیبی جنگ کے ذریعے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا، یوں تقریباً 88سال تک یہ ارض مقدس ان کے زیرِ تسلط رہی۔ 1187 میں مسلمانوں کے عظیم سپہ سالار حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا اور یوں یہاں تقریباً سات سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔سرزمین فلسطین میں یہود ونصاریٰ نے گریٹر اسرائیل کے صیہونی منصوبے کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کے لئے یہاں یہودی آباد کاری کا سلسلہ نہایت ہی تیزی سے جاری و ساری رکھا۔1170میں بیت المقدس میں صرف ایک یہودی تھا1175 میں ان کی تعداد بڑھ کر 150ہو گئی۔1918 میں ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے 55000 ہو گئی۔1922 میں یہ تعداد بڑھ کر 82000ہو گئی۔1925 میں مزید 61000 یہودی مختلف ممالک سے یہاں لا کر بسائے گئے۔ 1936 میں بیرون ممالک سے آ کر یہاں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے ساڑھے چار لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ابتداءمیں یہودیوں نے جرمن حکومت سے معاملہ کرنا چاہا تھا کیونکہ اس وقت جرمنی میں یہودیوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا اس وقت امریکہ میں ہے۔ڈاکٹر وائز مین یہودیوں کے قومی وطن کی تحریک کا علمبردار تھا۔ برطانوی پالیسی کی دستاویزات کی جلد سوم میں لارڈ بالفور کی ڈائری کے یہ الفاظ موجود ہیں:''ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجود باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، صیہونیت ہمارے لئے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین پر اس وقت آباد ہیں۔برطانیہ اور فرانس نے یہودی منصوبہ میں ایسا کام کیا جیسا کہ وہ آزاد ملک نہیں ہیں بلکہ صرف یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں مسلمان عرب 660641، عیسائی 71464 اور یہودی 82790 تھے ، فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سریربرٹ سیمیویل یہودی تھا۔جنگ عظیم دوم کے زمانہ میں معاملہ اس سے آگے بڑھ گیا ، ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی بہت زیادہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آباد کاری میں اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپی ممالک نے سہولت کاری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔انہیں مالی مدد فراہم کی۔ بھاری رقوم کا لالچ دے کر فلسطینی مسلمانوں سے ان کی زمینیں خریدیں۔
1947 میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا۔ نومبر 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کردیا۔ اس قرارداد کے حق میں 33ووٹ اور اس کے خلاف 13ووٹ تھے، دس ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، امریکہ نے دباﺅ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائیبریا سے تین ووٹ زبردستی حاصل کئے۔ فلسطین کی تقسیم کی جو تجویز زبردستی منظور کرائی گئی اس کی رو سے فلسطین کا 55فیصد رقبہ 33فیصد یہودیوں اور 45فیصد رقبہ 67فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔جون 1967 کی جنگ کے بعد جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے والا تھا ، اس وقت اسرائیل کے وزیر اعظم لیوی اشکول نے علی الاعلان یہ کہا کہ اگر اقوام متحدہ کے 122 اراکین میں سے 121بھی فیصلہ دے دیں تو تنہا اسرائیل کے حق میں اس کا صرف اپنا ہی ووٹ رہ جائے تو پھر بھی ہم اپنے مفتوحہ علاقوں سے نہ نکلیں گے۔ فلسطین میں یہودیوں نے اپنے قدم جمانے کے بعد نہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بلکہ مقامات مقدسہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کیا۔ اس میں بلاوجہ اور غیر ضروری توڑ پھوڑ کرنے سے بھی دریغ نہ کیا گیا۔ 21/اگست 1969 میں ایک آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے قبلہ اول کو آگ لگادی۔ مسجد اقصیٰ تین گھنٹے تک آگ کی لپیٹ میں رہی اور جنوب مشرقی جانب عین قبلہ کی طرف کا بڑا حصہ شہید ہوا۔ حضرت سلطان نور الدین زنگی کا تیار کروایا ہوا تاریخی منبر بھی اسی میں نذر آتش ہوا تھا۔اسرائیل کی پارلیمنٹ پر نمایاں لکھا ہوا ہے:”اے اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔“ یہودی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں جو تفصیل دی گئی ہے اس کی رو سے اسرائیل جن علاقوں پر مزید قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر،پورا ،اردن،شام ، لبنان ، عراق کا بڑا حصہ،ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ تک سرزمین حجاز کا بالائی علاقہ شامل ہے۔