برطانوی ناول نگار جارج آرویل کا ناول ”جانوروں کا فارم“ Animal Farm)پڑھا جائے یا فرانسیسی ادیب البرٹ کامیو کے مضمون باغی ( Rebel The) پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کا پیغام ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انقلابات صرف مخصوص ٹولے کی مطلق العنانیت کو پروان چڑھاتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ انقلابات کے حسین ”کمبلوں“ میں جھوٹ اور فریب کے پیوند لگتے رہتے ہیں اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب جھوٹ اور فریب کے پیوند ہی رہ جاتے ہیں اور ”اصل کمبل“ یعنی حقیقی انقلابی منشور غائب ہو جاتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے دونوں دانشور فیبین موومنٹ (Fabian movement)سے متاثر تھے جس کا بنیادی پیغام یہ تھا کہ ” نظام کی یکدم تبدیلی کی کوشش مزید انتشار پیدا کرے گی چنانچہ اسے ارتقائی عمل کے ذریعے بدلنا چاہئے۔ یہ تحریک دراصل ان کمیونسٹ تحریکوں کا ردعمل تھی جو دن رات انقلاب کے سپنے دیکھا کرتے تھے اور انکی آنکھوں کے سامنے صرف لال لال ہی لہرایا کرتا تھا۔
ایک قصہ یاد آگیا ایک جماعت میں استاد نے بچوں سے سوال کیا کہ تاریکی کیا ہوتی ہے؟ ایک بچے نے جواب دیا کہ تاریکی سائنس اور حقیقت کی زبان میں کچھ نہیں بلکہ روشنی کی غیر حاضری کا نام ہے۔ اس طرح سردی بھی درجہ حرارت کی عدم موجودگی کو کہتے ہیں۔ اسی طرح برائی جیسا منفی جذبہ حقیقی نہیں بلکہ اچھائی کی عدم موجودگی کا نام ہے۔ زندگی میں اچھائی کی ا±منگ باقی نہ رہے تو پھر اپنے ویرانے کا کوئی اچھا سا نام رکھ کر گوشہ نشین ہو جانا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔
روسی انقلاب کے سبب دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہوگئی فکری جہاں بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک وہ جو سمجھتے تھے کہ رنگ لائے گا ان کا ”فاقہ مست انقلاب“ ایک دن اور دوسرے وہ جو یقین رکھتے تھے کہ اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں ہے اور بار بار چراغوں کو بجھا کر دیکھنے سے ”دل پشوری“ تو کیا جا سکتا ہے۔ صبح طلوع نہیں ہو سکتی۔ روسی انقلاب نے فکری طور پر مغرب پر بھی بہت اثر ڈالا کسی پچھلے کالم میں ذکر کر چکا ہوں کہ معروف دانشور عیسایا برلن کو اسے انسانیت کیلئے 20 ویں صدی کا سب سے بڑا تحفہ قرار دینا پڑا کیونکہ اس کے بقول روسی انقلاب سے عالمی اشرافیہ نے عاجزی اور غریبوں کی حمایت سیکھی یعنی جہاں کمیونسٹ انقلاب نہیں بھی آیا ان سرمایہ دار ملکوں نے بھی مزدوروں کے ر±خ زرد کی آہ سرد کو سمجھ لیا اور ان کے حقوق کے لئے قوانین بنا دیئے۔ دوسری طرف کمیونسٹ انقلاب کے مخالفین کی یہ دلیل بھی انتہائی توجہ طلب ہے کہ انسانی قدروں کو نمایاں کرنے کے نام پر آئے اس انقلاب نے تو انسان کو اس کے احساسات اور جذبات سمیت آہنی پردے کے پیچھے جس طرح دھکیل دیا ہے اس طرح تو کوئی بھیڑ بکریوں کو بھی نہیں دھکیلتا۔
ماننا پڑے گا آہنی پردہ تو تان لیا گیا اور شخصی آزادیوں کا تصور بھی ماند پڑ گیا لیکن آج مغربی دانشور مارکیٹ اکانومی کی ”پھرتیوں“ اور چند ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز سے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں صرف دانشور ہی نہیں بلکہ نئی نسل بھی فری مارکیٹ اکانومی اور اس کے حامی سیاسی نظریات (نیولبرل ازم (Neo Liberalism) سے شکایت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سٹینفرڈ انٹرنیٹ آبزرویٹری کی ریسرچر رینی ڈی ریسٹا (Renee DiResta ) اپنی کتاب ”خفیہ حکمران“ (Invisible Rulers ) میں یہاں تک لکھ گئی ہیں کہ یورپ کی نئی نسل میں جو آہنی پردوں کی سیاست سے واقف نہیں سٹالن اپنی معاشی پالیسیوں کے باعث بہت مقبول ہو رہا ہے۔ روسی انقلاب نے اگرچہ انسانی آزادیوں کو آہنی پردوں کے پیچھے جکڑ دیا لیکن معاشی طور پر وہ ترقی دی کہ دیکھنے والوں نے دانتوں میں انگلیاں دبالیں۔
انقلاب برے نہیں ہوتے لیکن یہ ٹھہرا¶ کا نام بھی نہیں یعنی انقلاب وہی اچھا ہوتا ہے جسے مسلسل عمل سمجھا جاتا ہے اس کیلئے چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ما¶ انقلاب لائے کو منٹانک حکومت کے ظلم کو اکھاڑ پھینکا اس انقلاب میں مسلسل جان ڈالے رکھنے کیلئے ڈینگ ڑیا¶ پنگ اوپن ڈور پالیسی کے تحت انقلاب کے اندر انقلاب لے آئے جسے (Revolution Secend) کہا جاتا ہے اس پر ہی بس نہیں بلکہ موجودہ چینی صدر شی جن پنگ پی آر آئیBridge and Road iniciative کے ذریعے آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پوری دنیا کو ایک تجارتی اور خوشحال گا¶ں میں بدلا جا سکتا ہے۔ چینی انقلاب نے پہلے مرحلے میں کروڑوں انسانوں کو بھوک سے بچایا دوسرے مرحلے میں انتہائی غربت سے نکالا اور تیسرے مرحلے میں ساری دنیا کو تجارتی زون میں بدلنا چاہتا ہے۔
اسی طرح جنوبی افریقہ کی مثال بھی یاد رکھنی چاہئے جہاں نیلسن منڈیلا نے 26 برس سے زائد کی قید کاٹ کر نسل پرستی سے نجات دلائی اور اب جنوبی افریقہ کے عوام بھی دنیا کے ترقی کرتے ملکوں کی طرح قابل رشک زندگی گزار رہے ہیں ان انقلابات سے تھوڑا پیچھے چلیں تو اٹھارویں صدی کے آخر کا فرانسیسی انقلاب کسے یاد نہیں اگرچہ یہ انقلاب اندرونی طور پر اتنا زیادہ مفید نہیں رہا اور نو آموزوں کے ہتھے چڑھ کر نپولین کی مطلق العنانیت کی نذر ہو گیا لیکن دنیا پر اس کے اثرات انتہائی دور رس ہیں۔ فرانسیسی انقلاب نے بادشاہتوں سے بھری دنیا کو شہری ریاستوں میں بدل دیا یہی وجہ تھی کہ کیا دشمن کیا دوست فرانسیسی بادشاہ لوئس 16 کو بچانے کیلئے پورے یورپ کی بادشاہتیں فرانس پر چڑھ دوڑی تھیں اور اس وقت ایک انقلابی نے یہ تاریخی جملے کہے تھے کہ ”آج سارے یورپ کے بادشاہ اپنے جیسے بادشاہ کو بچانے کیلئے ہمارے دشمن بن گئے ہیں لیکن جس شدت سے یہ ہمارے دشمن بنے ہیں اسی نفرت سے لوئس کا کٹا ہوا سر ہم ان کے منہ پر دے مارےں گے۔
زندگی میں بہتری کی خواہش آگے بڑھنے کی تمنا اور تبدیلی کی جستجو انقلاب ہے اور انقلاب تو اچھے ہوتے ہیں کیونکہ اگر یہ سب کچھ نہ رہے تو زندگی موت سے بدتر ہو جاتی ہے لیکن صیاد دم گھٹ کر مرنے بھی نہیں دیتا جن معاشروں اور قوموں میں انقلاب کی آرزو دفن ہو جاتی ہے وہاں تو اشرافیہ مخصوص انقلابی ٹولے سے بھی زیادہ کھل کھیلتی ہے۔ معاشرے کے چیدہ چیدہ افراد کو الٹ پلٹ کر دیکھا جاتا ہے اور جب اچھی طرح یقین ہو جاتا ہے کہ ان میں کوئی دم نہیں تو پھر اپنی مرضی کے قوانین نافذ کئے جاتے ہیں۔ عوامی ٹیکسوں کے پیسے سے عیاشی کو قومی فرائض کی ادائیگی قرار دیدیا جاتا ہے۔ ریاست کے اصل مالکوں کو تپتی دوپہروں میں ٹریفک سنگلز پر کھڑے ہوکر بعض اوقات لاٹھیاں تک کھا کر عوامی پیسوں سے خریدی جہازی سائز کی گاڑیوں کے قافلے گزرنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ہٹو بچو کی صدا¶ں پر راہیں خالی کرنا پڑتی ہیں۔ اپنے اور اپنے بچوں کے پیٹ پر پتھر باندھ کر اشرافیہ کیلئے سالم بکروں کا انتظام کرنا پڑتا ہے اور ”سرکار“ کی خدمت کیلئے غلام ابن غلام پیدا کرنا پڑتے ہیں۔ ایک اچھی ریاست وہی ہوتی ہے جہاں ادارے طے شدہ حدود میں کام کریں اور انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہو کہ یہ ریاست یہ ملک عوام کا ہے اور اگر حدود سے آگے بڑھے تو عوامی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے گا اور عوام ناراض ہوں تو کوئی ریاست رہتی ہے نہ کوئی ادارہ چل سکتا ہے۔
تبدیلی کی خواہش ہر دل میں مچلنی چاہئے لیکن اس بات کا خیال رہے کہ حقیقی تبدیلی توڑ پھوڑ، تماشا گیری اپنی ہی املاک اور ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کا نام نہیں ہوتی بلکہ وہ خوبصورت جذبہ ہے جو کہتا ہے ”زندہ رہو اور زندہ رہنے دو“ آخر میں چی گویرا کا قول پیش خدمت ہے۔
”حقیقی انقلابی ہمیشہ محبت کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے“