لاہور کے آسمان پہ جگمگانے والا قطبی ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ راتوں کو چمکنے والی کہکشائیں اس قطبی ستارے سے نور اور رہنمائی حاصل کرتی تھیں۔ وہ بانی جماعت اسلامی پاکستان مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی کے دیرینہ ساتھی تھے۔اور جبر وظلم کی تند وتیز آندھیوں میں مولانا مودودی کیلئے ڈھال بنے رہے۔ انہوں نے جماعت اسلامی میں دامے درمے سخنے طویل خدمات انجام دیں۔چودھری اسلم سلیمی طویل عرصے تک جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر رہے، انہوں نے کئی دفعہ قائم مقام امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ذمہ داری بھی ادا کی۔ وہ قیم جماعت اسلامی کے عہدے پہ بھی فائز رہے، اس منصب پر آج کل میرے بھائی امیر العظیم فائز ہیں۔
بہرحال عالم اسلام کا المیہ ہے کہ علم و فضل کے جو سرچشمے تھے، وہ بند ہوتے جارہے ہیں۔ چودھری اسلم اسلم سلیمی کی وفات سے رشد و ہدایت کا ایک باب بند ہو گیا ہے۔مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، پروفیسر غفور احمد،قاضی حسین احمداور سید منور حسن کے بعد چودھری اسلم سلیمی کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جس نے ہر دل کو دکھی کر دیا ہے اور ان کی رحلت سے جماعت اسلامی کے نظم میںایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو برسوں تک پُر کرنا مشکل ہوگا۔
کوئی روکے کہیں دستِ اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں
چودھری اسلم سلیمی ایڈووکیٹ نے پاکستان کی دو نسلوں کی تربیت اور آ بیاری کی اور یہ جو پاکستان میں قدرے امن وسکون کاماحول ہے، یہ ان کی اور ان کے مخلص ساتھیوں کی ان تھک علمی اور عملی کاوشوں کا مرہون منت ہے۔ وہ علامہ اقبال ؒ کے اس شعر کی مجسم تصویر تھے۔
نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
چودھری اسلم سلیمی سے میرا بڑا گہرا اور پیار کا رشتہ تھا، وہ میرے ساتھ بڑے بھائیوں کی طرح شفقت سے پیش آتے رہے۔ دل ہے کہ اب چین کی دولت سے محروم ہے اور آنکھیں برسات کا منظر پیش کر رہی ہیں ۔ و ہ ضلع قصور کے نواح میںمیرے گاﺅں فتوحی والا کے ساتھ والے گاﺅں برج کلاںکے رہنے والے ایک بڑے زمیندار تھے اور دل بھی اتنا ہی بڑا تھا۔ وہ قصور کے ایک بڑے آرائیں خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ان کا وجوداہل علاقہ خاص طورپر غریب ونادار افراد کی فلاح بہبودکیلئے ایک سر چشمہ تھا۔ ہمارے علاقے نے چودھری اسلم سلیمی ایڈووکیٹ جیسی بے شمار نام وراور معروف علمی و سیاسی ہستیاں پیدا کی ہیں جن میں عبدالقادر قصوری، مولانااحمد علی قصوری، میاں محمود علی قصوری، محی الدین قصوری، ارشاد احمد حقانی ، صوفی ولی محمد فتوحی والا اور میاںخورشید محمود قصوری شامل ہیں۔ چودھری اسلم سلیمی ضلع قصور میں پلے بڑھے اور پڑھے،پنجاب یونیورسٹی لا ءکالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی اوراپنے ضلع قصورسے و کالت کا آغاز کیا۔ شعبہ وکالت کو پیشہ بنانے کی بجائے مشن بنایا، اہل علاقہ کی مقدور بھر خدمت کی، چودھری اسلم سلیمی مرحوم و مغفور مولانا مودودی کی علمی شخصیت سے بے حد متاثر تھے، مولانامودودی کی محبت ان کو قصور سے لاہورکھینچ لائی اور پھر وہ عمر بھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے 92سال کی عمر پائی اور وہ مرتے دم تک جماعت اسلامی پاکستان کے مرکز منصورہ سے منسلک اوررہائش پذیر رہے۔
کچھ عرصہ اسلامک پبلیکشنز کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور ادارہ معارف اسلامی لاہور کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے لیکن مدت ہوئی انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ تحریک اسلامی کے لئے وقف کردیا تھا، اب تحریک ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ جماعت اسلامی کو بہترین قانونی مشاورت سے نوازتے رہے۔ انتہائی مشفق اور اپنی وضع کے انسان تھے ۔ اب ایسے لوگ اور ایسی عظیم ہستیاں تلاش کرنے سے بھی کم ہی ملتی ہیں۔ عمر کے آخری حصے میںکمزور صحت کے باوجود جذبوں سے مالامال اور انتہائی حوصلے میں تھے۔ پہلے تو نماز جمعہ کےلئے وہیل چیئر پر باقاعدگی سے مسجد پہنچتے، پھر زیادہ کمزور ہوئے تو کبھی کبھی آنے لگے،ان کی کوشش ہوتی کہ پہلی صف میں جگہ ملے۔ وہ کچھ عرصہ کیلئے ہسپتال میں بھی زیر علاج رہے۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور اعلیٰ علیین سے نوازے آمین اور انکے جملہ پسماندگان کو صبر جمیل اجر جزیل عطا فرمائے آمین۔
چودھری اسلم سلیمی مرحوم نے مولانا مودودی اور ذوالفقار بھٹوکی ایک ملاقات کے بارے میں لکھا تھا کہ دسمبر 1971ءمیں سقوط ڈھاکہ کے بعد فوجی جرنیلوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل یحییٰ خان کی جگہ پاکستان کا چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر نامزد کیا تھا۔ صدارت کا منصب سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مولانا مودودی کو یہ پیغام بھیجا کہ ”میں ملاقات کے لیے آپ کے ہاں آنا چاہتا ہوں“۔ اس پر یہ طے ہوا کہ مولانا مودودی‘ ذوالفقار بھٹو سے گورنمنٹ ہاﺅ س لاہور میں ملاقات کر لیں۔ اس ملاقات کے لیے مولانا مودودی مرحوم و مغفور کے ساتھ میں خود گیا تھا۔
ذوالفقار بھٹو نے مولانا سے کہا: ”آپ عالم اسلام کے نام ور عالمِ دین ہیں۔ میں بچے کھچے پاکستان کی حکومت چلانے کے لیے آپ کے تعاون کا طلب گار ہوں‘ کیونکہ ہماری پارٹی کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے“۔مولانا مودودی نے فرمایا: ”بھٹو صاحب‘ آپ نے عام انتخابات میں سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔ پھر معروف سوشلسٹ اور دین سے بےزار افراد آپ کی حکومت میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کی موجودگی میں بھلا ہم کس طرح تعاون کر سکتے ہیں؟“
وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے چو د ھری اسلم سلیمی ایڈووکیٹ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ چودھری اسلم سلیمی ایڈووکیٹ بلا شبہ بہت بڑے مدبر اور اعلیٰ پائے کے سیاستدان تھے، چودھری اسلم سلیمی مرحوم کی رحلت سے پاکستان کی سیاست ایک درخشندہ ستارے سے محروم ہو گئی۔ قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائےگا۔
مولانا اسلم سلیمی کا ستارہ غروب ہو گیا
Oct 08, 2024