وطن عزیز تین چار دن بڑی ہیجانی کیفیت میں تھا چوبیس گھنٹے لائیو کمنٹری چل رہی تھی ماحول کچھ اس طرح کا بنا دیا گیا تھا ایسے لگ رہا تھا دو پہلوانوں کی کشتی ہونے جا رہی ہے فری سٹائل ریسلنگ کی طرح دونوں طرف سے طاقت کا اظہار کیا جا رہا تھا ایک دوسرے کو للکارے مارے جا رہے تھے اور ہتھ جوڑی سے پہلے ہی ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لیے ڈولے دکھائے جا رہے تھے اس بار حکومت کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہی تھی کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن کا احتجاج دس دن بعد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے مظاہرین کے احتجاج کو اس سے جوڑ کر مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی نقطہ کو سامنے رکھ کر اقدامات کیے گئے شاید حکومت کو خدشہ تھا کہ مظاہرین اسلام آباد اور لاہور میں قبضہ کرلیں گے اور دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے جنھیں اٹھانا مشکل ہو جائے گا اسی خطرہ کے پیش نظر حکومت نے پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز اور فوج کو بھی طلب کر لیا موٹر وے جیسی سڑک کو کھود کر خندقیں بنا چھوڑیں دوسری جانب مظاہرین بھی پورے لاﺅ لشکر کے ساتھ انتظامات کرکے نکلے کرینوں سمیت ہیوی مشینری ساتھ تھی وہ راستے کی ہر رکاوٹ دور کرتے ہوئے برہان انٹرچینج پہنچے جہاں انھیں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا شدید آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی لیکن مظاہرین برہان انٹرچینج کو کراس کر کے اسلام آباد داخل ہو گئے آخری رکاوٹ فوج کے دستے تھے جنھوں نے مظاہرین کو روکنے کا زیادہ تردد نہیں کیا مظاہرین نے بھی انھیں خوش اسلوبی کے ساتھ کہا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں آپ سے ہماری کوئی لڑائی نہیں احتجاج کے معاملے میں پہلی بار فوج نیوٹرل نظر آئی بلکہ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے پی ٹی آئی کے ساتھ کہیں نہ کہیں کوئی انڈر سٹینڈنگ موجود تھی کہ ہم آپ کو ڈی چوک تک رسائی دیں گے لیکن آپ ڈی چوک تک جاکر منتشر ہو جائیں گے ڈی چوک پر پہنچ کر علی امین گنڈا پور جلسہ کرنے کی بجائے خیبر پختون خواہ ہاﺅس نوافل پڑھنے چلے گئے اور لوگوں کو وہیں نوافل پڑھنے کے لیے کہا گیا اسکے بعد کے سارے معاملات بڑے پراسرار ہیں جن کو ہر دو فریق اپنا اپنا رنگ دے کر فتح کے دعوے کر رہے ہیں قبل ازیں بھی اسلام آباد جلسہ کے بعد علی امین گنڈا پور پر اسرار طور پر غائب ہو گئے تھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ امن وامان کی کسی لمبی میٹنگ میں پھنس گئے تھے جہاں سے وہ کسی کو اطلاع نہ دے سکے اور اس بار ان کے پیچھے اسلام آباد پولیس پڑی ہوئی تھی وہ گرفتاری کے خوف سے روپوش ہوئے اور پھر دیو مالائی کہانی کی طرح خیبر پختون خواہ اسمبلی میں نمودار ہو گئے یہ پر اسراریت اتنی سادہ نہیں جتنی بیان کی گئی ہے جو لوگ حکومتی امور بارے جانتے ہیں انھیں علم ہے کہ وزیر اعلی کا پروٹوکول کیا ہے کون کون سی ایجنسیاں انھیں مانیٹر کر رہی ہوتی ہیں اور انکی سیکیورٹی کے کس طرح کے انتظامات ہوتے ہیں ان کا اکیلے 12 اضلاع کراس کرکے خیبر پختون خواہ اسمبلی پہنچنا ہضم نہیں ہو رہا سب کو علم ہے کہ وہ رابطوں میں ہیں ان سے قبل بھی کچھ لوگ رابطوں میں تھے جو اعتماد پر پورا نہ اتر سکے اب علی امین گنڈا پور کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن میری اطلاعات ہیں کہ گنڈا پور معاملات جزوی طور پر آگے بڑھا پائے ہیں لیکن مکمل طور پر ٹارگٹ اچیو نہیں کر پا رہے اور شاید اب کچھ اور لوگوں کو معاملات آگے بڑھانے کے لیے انڈیکٹ کیا جا رہا ہے خیبر پختون خواہ حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو مدعو کرنے کی گفتگو بھی بہت زیادہ زیر بحث رہی تحریک انصاف کو بیرسٹر سیف سے وضاحت طلب کرنی چاہیے کہ انھوں نے یہ بات کس پیراہے میں کی ہے کیونکہ عوام ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ویسے حیرانگی ہے کہ ہم بے تکی باتوں کو کیونکر اتنی اہمیت دیتے ہیں اول تو ابھی تک کوئی کنفرم نہیں کہ بھارتی وزیر داخلہ پاکستان آ بھی رہے ہیں یا نہیں دوسرا کیا یہ احتجاج اگلے دس دن تک برقرار رہنا تھا جو جے شنکر کو خطاب کی دعوت دی جا رہی تھی تیسرا دو ایسے ملکوں جن کے درمیان اتنی زیادہ کشیدگی ہو وہاں ایسا ممکن نہیں کہ کوئی پبلک سے آکر اس طرح خطاب کر سکے البتہ ہم نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کو گورنر ہاﺅس لاہور میں خطاب کرتے سنا تھا جو میاں نواز شریف کی دعوت پر بس میں بیٹھ کر لاہور آئے تھے اور شرکاءنے ان کے خطاب کو اتنے انہماک سے سنا ۔ اب ذرا حکومت کی حکمت عملی بھی دیکھ لی جائے حکومت نے اگر یہی کام کرنا تھا تو طریقے سے بھی کیا جا سکتا تھا فوج اور رینجرز کو بلوا کر ماحول کو اتنا گرم کرنے کی کیا ضرورت تھی اگر تحریک انصاف کو اعتماد میں لیا جاتا انھیں پر امن ایک جلسہ یا احتجاج کی اجازت دی جاتی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہونا تھا اس سے دس بیس ہزار لوگ زیادہ جمع ہو جانے تھے باہمی اتفاق رائے سے یہ احتجاج ڈی چوک سے کہیں اور بھی ہو سکتا تھا حکومت کو چاہیے کہ اب بھی وہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کے لیے تحریک انصاف کو مدعو کرے انھیں کہا جائے کہ آئیں مل کر غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کریں تاکہ سربراہان مملکت کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر برقرار ہیں لیکن قومی ایشوز پر ہم سب ایک ہیں اب تک کی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ماننا پڑیگا کہ بانی پی ٹی آئی جیل کے اندر بیٹھے ہوئے بھی دباﺅ بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں حکومت لاہور میں مظاہرین کو روکنے میں کسی حد تک کامیاب رہی لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی تو ایسے لگ رہا تھا جیسے دونوں شہروں کو سیل کر دیا گیا ہے شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی 52 گھنٹوں تک موبائل سروس اور انٹرنیٹ بند رہا حکومتی اقدامات سے شہروں کی بندش سے اپوزیشن کا مقصد تو پورا ہو گیا پی ٹی آئی موضوع بحث رہی خوف میں اضافہ ہوا اور لوگ اس نتیجہ پر پہنچے کہ حکومت سمیت طاقتوں کو تحریک انصاف کو اعتماد میں لیے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے حکومت اور تحریک انصاف اس ہتھ جوڑی کو اپنی اپنی فتح قرار دے رہے ہیں لیکن یہ نقصان ملک وقوم کا ہو رہا ہے خدارا قوم پر رحم کریں قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالیں ہر بندہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ نہ جانے اگلے لمحے کیا ہو جائے۔