کون جیتا؟ کون ہارا ؟

Oct 08, 2024

میاں حبیب

وطن عزیز تین چار دن بڑی ہیجانی کیفیت میں تھا چوبیس گھنٹے لائیو کمنٹری چل رہی تھی ماحول کچھ اس طرح کا بنا دیا گیا تھا ایسے لگ رہا تھا دو پہلوانوں کی کشتی ہونے جا رہی ہے فری سٹائل ریسلنگ کی طرح دونوں طرف سے طاقت کا اظہار کیا جا رہا تھا ایک دوسرے کو للکارے مارے جا رہے تھے اور ہتھ جوڑی سے پہلے ہی ایک دوسرے کو مرعوب کرنے کے لیے ڈولے دکھائے جا رہے تھے اس بار حکومت کچھ زیادہ ہی حساس ہو رہی تھی کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن کا احتجاج دس دن بعد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے مظاہرین کے احتجاج کو اس سے جوڑ کر مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور اسی نقطہ کو سامنے رکھ کر اقدامات کیے گئے شاید حکومت کو خدشہ تھا کہ مظاہرین اسلام آباد اور لاہور میں قبضہ کرلیں گے اور دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے جنھیں اٹھانا مشکل ہو جائے گا اسی خطرہ کے پیش نظر حکومت نے پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز اور فوج کو بھی طلب کر لیا موٹر وے جیسی سڑک کو کھود کر خندقیں بنا چھوڑیں دوسری جانب مظاہرین بھی پورے لاﺅ لشکر کے ساتھ انتظامات کرکے نکلے کرینوں سمیت ہیوی مشینری ساتھ تھی وہ راستے کی ہر رکاوٹ دور کرتے ہوئے برہان انٹرچینج پہنچے جہاں انھیں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا شدید آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی لیکن مظاہرین برہان انٹرچینج کو کراس کر کے اسلام آباد داخل ہو گئے آخری رکاوٹ فوج کے دستے تھے جنھوں نے مظاہرین کو روکنے کا زیادہ تردد نہیں کیا مظاہرین نے بھی انھیں خوش اسلوبی کے ساتھ کہا کہ آپ ہمارے بھائی ہیں آپ سے ہماری کوئی لڑائی نہیں احتجاج کے معاملے میں پہلی بار فوج نیوٹرل نظر آئی بلکہ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے پی ٹی آئی کے ساتھ کہیں نہ کہیں کوئی انڈر سٹینڈنگ موجود تھی کہ ہم آپ کو ڈی چوک تک رسائی دیں گے لیکن آپ ڈی چوک تک جاکر منتشر ہو جائیں گے ڈی چوک پر پہنچ کر علی امین گنڈا پور جلسہ کرنے کی بجائے خیبر پختون خواہ ہاﺅس نوافل پڑھنے چلے گئے اور لوگوں کو وہیں نوافل پڑھنے کے لیے کہا گیا اسکے بعد کے سارے معاملات بڑے پراسرار ہیں جن کو ہر دو فریق اپنا اپنا رنگ دے کر فتح کے دعوے کر رہے ہیں قبل ازیں بھی اسلام آباد جلسہ کے بعد علی امین گنڈا پور پر اسرار طور پر غائب ہو گئے تھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ امن وامان کی کسی لمبی میٹنگ میں پھنس گئے تھے جہاں سے وہ کسی کو اطلاع نہ دے سکے اور اس بار ان کے پیچھے اسلام آباد پولیس پڑی ہوئی تھی وہ گرفتاری کے خوف سے روپوش ہوئے اور پھر دیو مالائی کہانی کی طرح خیبر پختون خواہ اسمبلی میں نمودار ہو گئے یہ پر اسراریت اتنی سادہ نہیں جتنی بیان کی گئی ہے جو لوگ حکومتی امور بارے جانتے ہیں انھیں علم ہے کہ وزیر اعلی کا پروٹوکول کیا ہے کون کون سی ایجنسیاں انھیں مانیٹر کر رہی ہوتی ہیں اور انکی سیکیورٹی کے کس طرح کے انتظامات ہوتے ہیں ان کا اکیلے 12 اضلاع کراس کرکے خیبر پختون خواہ اسمبلی پہنچنا ہضم نہیں ہو رہا سب کو علم ہے کہ وہ رابطوں میں ہیں ان سے قبل بھی کچھ لوگ رابطوں میں تھے جو اعتماد پر پورا نہ اتر سکے اب علی امین گنڈا پور کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن میری اطلاعات ہیں کہ گنڈا پور معاملات جزوی طور پر آگے بڑھا پائے ہیں لیکن مکمل طور پر ٹارگٹ اچیو نہیں کر پا رہے اور شاید اب کچھ اور لوگوں کو معاملات آگے بڑھانے کے لیے انڈیکٹ کیا جا رہا ہے خیبر پختون خواہ حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو مدعو کرنے کی گفتگو بھی بہت زیادہ زیر بحث رہی تحریک انصاف کو بیرسٹر سیف سے وضاحت طلب کرنی چاہیے کہ انھوں نے یہ بات کس پیراہے میں کی ہے کیونکہ عوام ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ویسے حیرانگی ہے کہ ہم بے تکی باتوں کو کیونکر اتنی اہمیت دیتے ہیں اول تو ابھی تک کوئی کنفرم نہیں کہ بھارتی وزیر داخلہ پاکستان آ بھی رہے ہیں یا نہیں دوسرا کیا یہ احتجاج اگلے دس دن تک برقرار رہنا تھا جو جے شنکر کو خطاب کی دعوت دی جا رہی تھی تیسرا دو ایسے ملکوں جن کے درمیان اتنی زیادہ کشیدگی ہو وہاں ایسا ممکن نہیں کہ کوئی پبلک سے آکر اس طرح خطاب کر سکے البتہ ہم نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کو گورنر ہاﺅس لاہور میں خطاب کرتے سنا تھا جو میاں نواز شریف کی دعوت پر بس میں بیٹھ کر لاہور آئے تھے اور شرکاءنے ان کے خطاب کو اتنے انہماک سے سنا ۔ اب ذرا حکومت کی حکمت عملی بھی دیکھ لی جائے حکومت نے اگر یہی کام کرنا تھا تو طریقے سے بھی کیا جا سکتا تھا فوج اور رینجرز کو بلوا کر ماحول کو اتنا گرم کرنے کی کیا ضرورت تھی اگر تحریک انصاف کو اعتماد میں لیا جاتا انھیں پر امن ایک جلسہ یا احتجاج کی اجازت دی جاتی تو زیادہ سے زیادہ کیا ہونا تھا اس سے دس بیس ہزار لوگ زیادہ جمع ہو جانے تھے باہمی اتفاق رائے سے یہ احتجاج ڈی چوک سے کہیں اور بھی ہو سکتا تھا حکومت کو چاہیے کہ اب بھی وہ شنگھائی تعاون تنظیم کی کانفرنس کے لیے تحریک انصاف کو مدعو کرے انھیں کہا جائے کہ آئیں مل کر غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کریں تاکہ سربراہان مملکت کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ ہمارے سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر برقرار ہیں لیکن قومی ایشوز پر ہم سب ایک ہیں اب تک کی صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ ماننا پڑیگا کہ بانی پی ٹی آئی جیل کے اندر بیٹھے ہوئے بھی دباﺅ بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں حکومت لاہور میں مظاہرین کو روکنے میں کسی حد تک کامیاب رہی لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی تو ایسے لگ رہا تھا جیسے دونوں شہروں کو سیل کر دیا گیا ہے شہری زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی 52 گھنٹوں تک موبائل سروس اور انٹرنیٹ بند رہا حکومتی اقدامات سے شہروں کی بندش سے اپوزیشن کا مقصد تو پورا ہو گیا پی ٹی آئی موضوع بحث رہی خوف میں اضافہ ہوا اور لوگ اس نتیجہ پر پہنچے کہ حکومت سمیت طاقتوں کو تحریک انصاف کو اعتماد میں لیے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے حکومت اور تحریک انصاف اس ہتھ جوڑی کو اپنی اپنی فتح قرار دے رہے ہیں لیکن یہ نقصان ملک وقوم کا ہو رہا ہے خدارا قوم پر رحم کریں قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالیں ہر بندہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ نہ جانے اگلے لمحے کیا ہو جائے۔

مزیدخبریں