فیصلے اور ذمہ داری 

اگر کوئی رکن اسمبلی ایوان میں پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ نااہل ہوجائے گا۔ یہ ہے آئین پاکستان کا آرٹیکل تریسٹھ ذیلی شق الف۔ اس کی مزید وضاحت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن مواقع پر وہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ نہیں ڈال سکتا اور پھر اس کو نااہل قرار دیئے جانے کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ کوئی شک کوئی کنفیوژن ؟ بالکل سادہ سی بات پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ دیا تو نشست چلی جائے گی۔ عام فہم سے بات ہے۔ لیکن یہی عام فہم بات جب ہماری سب سے بڑی عدالت کے ججز کے سامنے وضاحت کیلئے ہیش کی گئی تو عام فہم نہیں رہی۔ انہوں نے کچھ یوں تشریخ کردی اگر کوئی رکن پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ ڈالے گا تو وہ نااہل تو ہوجائے گا لیکن اس کا ڈالا گیا ووٹ بھی گنا نہیں جائے گا۔ اب ووٹ نہ گنا جانا تو آئین کی تحریر میں کہیں نہیں تشریح میں کہاں سے آگیا۔ تو اس وقت کے سیاسی حالات دیکھ لیں بات سمجھ آجائیگی، پنجاب اسمبلی میں حکومتی جماعت میں ایک فارورڈ بلاک بن جاتا ہے جو اپوزیشن کی حمایت کردیتا ہے۔ اور اپوزیشن جماعتوں کے حکومت سازی کیلئے نمبرز پورے ہوجاتے ہیں تو اچانک صدر سادہ سے آرٹیکل تریسٹھ کی تشریح عدالت عظمی سے مانگ لیتے ہیں اور جو تشریخ آتی ہے وہ سیاسی منظر نامہ بدل دیتی ہے۔ آئین بنانے والے سر پیٹتے رہ جاتے ہیں کہ ہمارے بنائے گئے آئین کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیکن ساڑھے چار سو منتخب نمائندوں کے بنائے گئے آئین پر پانچ ججز کی اپنی تشریخ معتبر ٹھہری۔ حالیہ دنوں میں سب سے بڑی عدالت سے ایک اور فیصلہ آیا جسے آئین کو از سر نو تحریر قرار دیا گیا۔ جی ہاں مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ جہاں عدالت نے ایک جماعت میں شامل ہونیوالے ارکان کو پندرہ دن کا وقت دے دیا کہ وہ دوسری جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس سے ہٹ کے کہ درخواست گزاز اور دفاع کرنیوالے سبھی کچھ اور مانگ رہے تھے۔ سوال یہ اٹھایا گیا کہ قانون میں تو آزاد ارکان کے کسی پارٹی میں شمولیت کیلئے تین دن کا وقت ہے اور اگر وہ ان تین دنوں کے اندر کسی پارٹی میں شامل ہوجاتے ہیں تو پھر وہ پارٹی بدل نہیں سکتے لیکن ایک پارٹی میں شامل ہو جانے والے ارکان کو بغیر ان کی استدعا کے نیا بیان حلفی جمع کرانے کیلئے پندرہ دن کا وقت دے دینا یہ کس قانون میں لکھا گیا، جی بالکل یہ کسی قانون میں نہیں سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا ہے۔ آئین پاکستان کو بنے پچاس سال سے زائد گزر چکے ہیں اس عرصے میں دو درجن ترامیم لائی گئی ہیں۔ آئینی ترمیم کوئی آسان کام نہیں ایک پیچیدہ عمل ہے۔ آئین میں ایک نکتہ بدلنے کیلئے بھی دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی میں کل تعداد کے دو تہائی ارکان کی اکثریت ثابت کرنا ہوتی ہے۔ ایک ترمیم کی منظوری کیلئے تین ریڈنگز ہوتی ہیں اور ہر ریڈنگ پر دو تہائی ارکان کا ووٹ درکار ہوتا ہے۔ اور پھر یہی عمل دوسرے ایوان میں بھی مکمل کرنا ہوتا ہے۔ اور پھر صدر مملکت کی حتمی منظوری کے بعد وہ تبدیلی آئین کا حصہ بن جاتی ہے۔ اب سوچیں کہ ملک کی پارلیمنٹ کے کم سے کم تین سو ارکان اپنی رائے سے جو آئین بنائیں اس کو عدالت ایک فیصلے سے بدل دے۔ عدالت آئین کی تشریح کرسکتی ہے لیکن عموماً ایسا وہاں ہوتا ہے جہاں آئین خاموش ہو تو عدالت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اصل میں یہاں کیا ہوسکتا ہے آئین کی روح کیا ہے اور پھر کچھ کیسز میں عدالت کسی قانون کو آئین سے متصادم سمجھے تو اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ لیکن آئین اور قانون میں فرق ہے۔ قانون ایوان کے اندر موجود ارکان کی اکثریتی رائے ہوتی ہے یعنی اگر جب قانون پیش ہوا تو صرف پچاس ارکان موجود ہوں اور چھبیس قانون کے حق میں ووٹ دیں تو وہ منظور ہوجاتا ہے لیکن آئین میں تبدیلی دو تہائی اکڑیت کے بغیر ممکن نہیں اور دو تہائی کی شرط اسی لئے رکھی گئی ہے کہ آئین کیساتھ چھیڑ چھاڑ نہ ہوسکے۔ ہماری عدالتوں سے ماضی میں بہت سے متنازعہ فیصلے آئے ایسے فیصلے جو نہ ہوتے تو شاید اج صورتحال بالکل مختلف ہوتی یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری عدلیہ آج اس بات کو تسلیم کررہی ہے اور اپنے فیصلوں کو درست کرنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔ چار دہائیاں پہلے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے ملک کے ایک وزیر اعظم کو پھانسی چڑھا دیا گیا اسے ہمیشہ ایک عدالتی قتل قرار دیا گیا اور اب آ کے عدالت نے بھی مانا کہ وہ فیصلہ درست نہیں تھا آرتیکل تریسٹھ اے کا فیصلہ بھی دو سال بعد واپس لے کیا گیا ایسے ہی کئی فیصلے ہیں جنہوں نے عدلیہ کو نہ صرف متنازعہ بنایا بلکہ اس کو اندرونی تقسیم کا شکار کیا۔ ماضی کے فیصلوں کو درست کرنا تو خوش آئند ہے۔عدلیہ کی فیصلوں کا احتساب تو شاید ممکن نہ ہو لیکن خود احتسابی اور ایسے فیصلوں کے اثرات کی زمہ داری تو قبول کی جاسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن