یعنی کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے لیے ہدایت کے راستے نہیں کھولتا بلکہ صرف ان کے لیے کھولتا ہے جو اس کے لیے کوشش کرتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور جنھوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بے شک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔( سورة العنکبوت)
قرآن مجید ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو ہدایت کے طلب گار ہوں ۔ سورة البقرة میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’ یہ بلند رتبہکتاب کوئی شک نہیں اس میں ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لیے ‘۔اس کتاب سے ہدایت اسی کو ملے جو متقی اور پرہیز گار ہو اور ہدایت کا طلب گار بھی ہو ۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر مطلق ہے لیکن انسان کو صرف اتنا کچھ ہی ملتا ہے جتنی اس کی طلب ہو ہر انسان کو اس کے ظرف کے مطابق دیا جاتا ہے ۔ جس کی طلب محدود ہوگی اسے کم چیز ملے گی اور جس کی طلب زیادہ ہو گی اسے زیادہ ملے گی ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: جو یہ جلدی والی چاہے ہم اسے جلددے دیں جو چاہیں جسے چاہیں پھر اس کا ٹھکانہ جہنم کر دیں کہ اس میں جائے مذمت کیا ہوا دھکے کھاتا ۔ اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے اور ہو ایمان والا تو انھیں کی کوشش ٹھکانے لگی ۔ ہم سب کو مدد دیتے ہیںان کو بھی اور ان کو بھی تمھارے رب کی عطا سے اور تمھارے رب کی عطا پر روک نہیں ۔ ( سورة بنی اسرائیل )
اللہ تعالیٰ کی عطا سب کے لیے عام ہے لیکن جو لوگ اپنی عطا کو محدود کر لیتے ہیں وہ محدود چیز حاصل کر پاتے ہیں اور جو وسعت طلبی کا مظاہرہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ان کی طلب کے مطابق وافر عطا فرماتا ہے ۔
انسان کے گناہ بھی اس کو ہدایت کے راستے سے دور کر دیتے ہیں ۔ انسان کی گمراہی کا بڑ اسبب اس کے گناہ ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور وہ گمراہ نہیں کرتامگر نافرمانوں کو۔ (سورة البقرة)
انسان کا فسق اور اس کی نافرمانی ہی اس کو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے ۔اگر کسی بندے کو ہدایت مل جائے وہ یہ کبھی نہ سوچے کہ یہ اس کی اپنی کوشش کا نتیجہ ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اس پر فضل ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: مشرق اور مغرب اللہ کے لیے ہیں وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دیتا ہے ۔( سورة البقرة)
ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جسے ہدایت مل جائے وہ اسے اللہ کا فضل اور کرم سمجھے نہ کہ اسے اپنی کوشش کا نتیجہ ۔