منگل‘ 4 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 8 اکتوبر 2024

وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی پراسرار واپسی
یہ اچانک نمودار ہونا یا آجانا چہ معنی دارد؟ یوں تو پہلے بھی وہ ایک رات ایسی ہی پراسرار روپوشی میں بسر کر چکے ہیں۔ اب پھر وہی صورتحال ہے۔ کیا پہلے کی طرح یہ کوئی پری پلاننگ تو نہیں۔ بہرحال وہ پشاور اسمبلی کے اجلاس میں جو دوپہر دو بجے کے بجائے رات کو منعقد ہوا، اچانک نعرے لگاتے داخل ہوئے۔ شاید یہ بھی طے شدہ تھا کیونکہ دو بجے کے بجائے اجلاس رات کو منعقد ہونا بھی عجیب بات ہے۔ کیا ارکان یا سپیکر اسمبلی کو پتا تھا کہ وہ رات کو اسمبلی آجائیں گے۔ وہاں آکر انھوں نے یہ بتانے کی بجائے وہ کیسے پراسرار طریقے سے ریلی چھوڑ کر سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یا سلیمانی ٹوپی پہن کر کے پی ہاو¿س پہنچ گئے۔ کیا وہاں تک انھیں پہلے کی طرح اسی غیبی طاقت نے تو نہیں پہنچایا جس کا نام لینے سے وہ شرماتے ہوں۔ان کا کہنا بھی مشکوک لگتا ہے کہ وہ رات بھر کے پی ہاو¿س میں رہے۔ حیرت ہے کیا وہاں بقول پی ٹی آئی دھاوا بولنے والے سینکڑوں پولیس اہلکار اندھے تھے کہ جنھوں نے انھیں باتھ روم میں واش روم میں، بیڈروم میں، صوفوں کے پیچھے، پلنگوں کے نیچے، پردوں کے پیچھے کہاں کہاں تلاش کیا مگر سلیمانی ٹوپی یا جادوئی شال اوڑھنے کی وجہ سے وہ کسی کو نظر نہ آئے۔ پھر شاید کسی جن نے انھیں وہاں سے اٹھا کر باہر نکال لیا۔ پھر اس کے بعد وہ اسی جن کے پروں تلے چھپے رہے اور شب بسری کے بعد طلسمی قالین پر بیٹھ کر اپنے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے شام کو پشاور پہنچ گئے۔ جہاں انھوں نے دھواں دھار تقریر کی مگر اصل بات ’چناں کتھاں گزاری آئی رات وے‘ کا جواب گول کر گئے صرف یہ کہا، میں کے پی ہاو¿س میں تھا۔ زیادہ وقت سنگ جانی اور مویشی منڈی کاہنہ کا دکھڑا دکھاتے رہے یا لسانیت اور نسلی تعصب پر بولے۔ ریلی سے غائب ہونے اور چوبیس گھنٹے روپوش ہونے کا ذکر نہیں کیا۔
اسلام آباد پولیس نے خیبر پختونخوا سے آئی بھاری مشینری تھانے پہنچا دی
 یہ تو بڑی زیادتی ہے، بھلا ان گاڑیوں، بلڈوزروں، فائر فائٹرز اور کرینوں، گاڑیوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا کہ انھیں پولیس پکڑ کر لے گئی اور تھانے میں بند کردیا۔ یہ تو بے جان ہوتی ہیں، انھیں تو چلانے والے انسان جہاں چاہے اچھے یا برے مقصد کے لیے جہاں چاہیں لے جا سکتے ہیں۔ اب بلڈوزر کو ہی لے لیں، چاہے اسے سڑکوں کی تعمیر کے لیے بند بنانے کے لیے استعمال کریں یا چاہیں تو اس سے تجاوزات گرائیں۔ لوگوں کے گھر اورجھونپڑیاں گرائیں۔ یہ تو اس کے چلانے والوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیا کام لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کے پی سے جو احتجاجی ریلی اسلام آباد کی طرف چلی تو انھوں نے حفاظتی طور پر رکاوٹیں ہٹانے کے لیے یہ بھاری مشینری بھی حفاظتی دستے کے طور پر ساتھ رکھی تاکہ کارنوں کا حوصلہ بلند رہے کہ ہمارے پاس بھی کچھ ہے۔ ویسے ہی جیسے ڈنڈے، غلیلیں، کنچے، پتھراو¿ کے لیے پہاڑی پتھر اور آنسو گیس کے گولے پھینکنے کے لیے گنوں کو دیکھ کر ان کے حوصلے بلند ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ کھانے پینے کا وافر ذخیرہ بھی ساتھ رکھنے کا وزیراعلیٰ کے پی پہلے ہی کہہ چکے تھے۔ یوں اب کارکن تو کچھ پکڑے گئے باقی وزیراعلیٰ کی طرح بھاگ نکلے۔ یہ بے چاری بے زبان مشینری اسلام آباد انتظامیہ کے ہتھے چڑھ گئی جس نے ان کو اٹھا کر یا لے جا کر تھانے میں بند کر دیا۔ شکر ہے غصے میں جلائی تباہ نہیں کی۔ اب ان بے چاروں کی کیا ضمانت کرانا ہوگی۔ ان کے نیک چال چلنی کا سرٹیفکیٹ دینا ہو گا۔ یہ کون کرے گا۔ کے پی میں پہلے ہی سرکاری مشینری کی قلت ہے، اب ان کے سیاسی استعمال کے بعد تو وہاں جو تھوڑی بہت مشینری تھی، وہ بھی نہیں رہی تو تعمیراتی کام کاج کیسے ہوں گے جو ویسے ہی سست روی کا شکار ہیں۔ 
شیخ رشید نے اپنا یوٹیوب چینل کھل لیا
چلو اچھا ہے، اسی طرح ’ویہلے‘ بیٹھ کر بور ہونے اور دماغی مریض بننے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ کوئی کام ہی کیا جائے۔ ویسے بھی شیخ کشمیری ہوں، کراچی والے یا نارووال والے یا پنڈی والے، بہرحال شیخ ہی ہوتے ہیں۔ فارغ رہنے سے زیادہ کام کرنے اور کچھ کمانے کی سوچتے سوچتے ان کی زندگی گزر جاتی ہے۔ یہ کوئی بری بات نہیں۔ وہ سیانے کہہ گئے ہیں ’بے کار مباش کچھ کیا کر، بخیے ادھیڑ کر ہی سیا کر‘۔ اب شیخ رشید کے تو فی الحال اپنے ہی بخیے ادھڑے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی جب تک حکومت رہی موصوف کپتان کی ناک کا بال بنے ہوئے تھے اور خوب وزارتوں کے مزے لیتے رہے۔ کمال کا بندہ ہے، ایک سیٹ تھی اور وزیر بنا رہتا تھا۔ یہ کمال ان کے علاوہ فضل الرحمن کو بھی حاصل ہے کہ چار یا پانچ سیٹوں کے بل بوتے پر دو وزارتیں ایک مشیر اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی چٹکی بجاتے ہی حاصل کر لیتے تھے۔ اب شیخ جی نے دل پشوری کرنے کے لیے اپنا یوٹیوب چینل بنالیا ہے۔ ریلوے اور اطلاعات و نشریات ان کی پسندیدہ وزارتیں تھیں، اب یہی تجربہ بروئے کار لا کر وہ یوٹیوب چینل چلائیں گے۔ اس سے بہتر ہے وہ اپنی زندگی کے تجربات بیان کیا کریں، کچھ لوگ چسکا لینے کے لیے سنیں گے۔ اسے چاہے ’تنہائی کے دن اور راتیں‘ کا عنوان دیا جائے، ساتھ ہی شغل کے طور پر سیاسی سفر اور اس کے حوالے سے بھی ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہوگا۔ اب تو وہ لال حویلی اور اپنے فارم ہاو¿س تک ہی محدود ہو گئے ہیں۔ باہر نکلیں تو پی ٹی آئی والے جن ہاتھوں میں پھول اٹھائے آتے تھے، آج پتھر اٹھائے ہر چوک پر انھیں مارنے کو کھڑے ملتے ہیں کیونکہ جو ان کے بانی کے ساتھ نہیں، وہ ان کے نزدیک سزا کا مستحق ہے۔ اس لیے شیخ جی ان سے بچتے پھرتے ہیں کہ کہیں ان کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ 
٭....٭....٭
جوبائیڈن میری بیگم سے متاثر تھے، بورس جانسن
سیاسی دنیا میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں، خاص طور پر مغربی دنیا میں شاید اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا جاتا۔ آزاد خیالی نے انھیں بہت وسیع القلب بنا دیا ہے۔ ویسے حیرت کی بات ہے، امریکی صدر جوبائیڈن عمر کے جس حصے میں ہیں، آج سے چار سال قبل ان کی ہی بات کر یں تو وہ شاید ہی اپنی بیگم کے سوا کسی اور نازنین کی طرف متوجہ ہوتے ہوں گے۔ متاثر ہونا تو دور کی بات ہے۔ برطانوی سابق وزیراعظم بورس جانسن کو نجانے کیوں ایسا لگا تھا کہ امریکی صدر ان کی بیگم کے حسن سے متاثر ہیں۔ ماضی میں برطانوی وائسرائے ماو¿نٹ بیٹن کی مسز پر برصغیر کے جواہر لال نہرو بھی فدا تھے۔ انھوں نے اس کا بہت سیاسی فائدہ بھی اٹھایا۔ تقسیم ہند کے منصوبے میں بہت من مانی کرائی مگر بیگم جونسن سے بھلا جوبائیڈن نے کیا کہنا تھا۔ رہی بات خوبصورتی کی تو امریکی سابق صدر کینیڈی بھی جو اس دور کے خوبرو مرد تھے، ان کی بیگم جولین بھی بہت خوبصورت تھیں۔ اس کے باوجود وہ حسن کی دیوی کہلانے والی منرو جیسی حسین اداکارہ کی زلفوں کے اسیر رہے۔ اس معاشقے کا نتیجہ مارلن منرو کی خودکشی کی شکل میں نکلا تھا۔ پھر ایک اور خوبصورت امریکی صدر بل کلنٹن بھی اپنے سٹاف کی ایک پری چہرہ مونیکا پر مر مٹے تھے۔ کینیڈی کی طرح کلنٹن کی داستان عشق کے بھی چرچے مشہور ہوئے جس کا انجام کلنٹن کی کانگریس میں پیشی اور سرزنش پر ہوا۔ یہ تو سرسری بات ہے کیا صدر اور وزیراعظم انسان نہیں ہوتے۔ ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اگر وہ کسی کو دیکھ کر دھڑکتا ہے، مچلتا ہے تو اس پر کسی کا زور نہیں چلتا۔ بقول شاعر یہ تو واقعی:
دیکھا جو حسن یار طبیعت مچل گئی
آنکھوں کا تھا قصور چھری دل پہ چل گئی
دل سے تیری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کرگئی
والی بات ہے۔ اس میں بابے جوبائیڈن کا کوئی قصور نہیں۔ ویسے بھی یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کیونکہ اس عمر میں ٹھیک سے نظر ہی کب آتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن