غزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی کا ایک سال مکمل

Oct 08, 2024

غزہ میں غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے کی جاری دہشت گردی کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ دہشت گردی کا یہ سلسلہ 7 اکتوبر 2023ءکو شروع ہوا تھا اور اس دوران اب تک چالیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں تقریباً سترہ ہزار بچے شامل ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ غزہ میں موجود کل بچوں میں سے ڈھائی فیصد سے زائد اسرائیل کی طرف سے اس ایک سال کے دوران کی جانے والی دہشت گردی کی وجہ سے شہید ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ غزہ میں شہید ہونے والے افراد میں تقریباً ساڑھے اٹھارہ فیصد خواتین شامل ہیں۔ 7 اکتوبر سے اب تک ہر روز غاصب صہیونی کے ہاتھوں کم از کم 53 بچے جبکہ 72 عورتیں اور مرد شہید ہوئے۔ علاوہ ازیں، دس ہزار سے زائد افراد ملبے تلے دبے ہوئے۔ اس سب کے باوجود پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے جاری دہشت گردی کے اس سلسلے کے بند ہونے کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔
7 اکتوبر کے حوالے سے جاری کیے گئے اپنے پیغام میں وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا کہ مجھ سمیت آج پوری قوم اپنے نہتے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا دن منا رہی ہے۔ 7 اکتوبر کو فلسطینیوں پر اسرائیلی ظلم و بربریت کی نئی لہر کو شروع ہوئے پورا ایک برس بیت چکا، عالمی قوتوں، بین الاقوامی اداروں، سلامتی کونسل کی قرادادوں اور بین الاقوامی عدالت کا تمسخر اڑاتے ہوئے اسرائیل اب تک بچوں، بوڑھوں اور عورتوں سمیت41 ہزار نہتے فلسطینیوں کا قتل عام، لاکھوں کو زخمی اور بے گھر کر چکا ہے۔ غزہ اس وقت بدترین بمباری کے بعد کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے اور اس پر عالمی قوتوں کی خاموشی اتنی ہی قابل مذمت اور تشویش ناک ہے جتنے اسرائیل کے مظالم۔ وزیراعظم نے کہاکہ آج کے دن میرا عالمی برادری کو پیغام ہے کہ اسرائیل کے ظلم و ستم اور نسل کشی کو اگر نہ روکا گیا تو یہ خطے کے امن کو تباہ کرکے ایسے کشیدہ حالات پیدا کر سکتی ہے جس کے منفی نتائج سے دنیا کا کوئی ملک متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا۔
وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اسرائیلی دہشت گردی 7 اکتوبر 2023ءسے نہیں بلکہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے۔ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اب نہ صرف غزہ اور فلسطین بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ایسی ریاستی دہشت گردی کو روکنے کی بجائے عالمی قوتوں نے اس کا ساتھ دیا تو پوری دنیا کو اس کے نا قابلِ تلافی نقصانات اٹھانا پڑے۔ شہبازشریف نے کہاکہ پاکستان اپنے بانی حضرتِ قائداعظم محمد علی جناح کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف ظلم و جبر اور غیر قانونی غاصبے کی بنیادوں پر کھڑی اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ پاکستان اسرائیلی ظلم و جبر کے شکار نہتے فلسطینی بہن بھائیوں کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی مدد جاری رکھے گا۔
غزہ کے عوام سے اظہارِ یکجہتی کے لیے گزشتہ روز ایوانِ صدر میں صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں آصف زرداری اور شہباز شریف کے علاوہ سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نواز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علماءاسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سمیت اور ملک کی دیگر سیاسی قیادت نے شرکت کی۔ اس موقع پر صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک سال پہلے اسرائیل نے غزہ اور فلسطین پر جارحیت کی، اسرائیل کے اقدامات دنیا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ اسرائیل فلسطین کے علاوہ لبنان پر بھی جارحیت کر رہا ہے۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، اسرائیلی جارحیت کے باعث 41 ہزار فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ فلسطین اور غزہ میں صحت اور تعلیم کا ڈھانچہ مکمل تباہ ہوچکا ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ ہم اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو جارحیت سے روکیں۔ ہم اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر فورم پر اٹھاتے رہیں گے۔
دوسری جانب، غاصب اسرائیلی فوج نے غزہ میں ایک اور سفاکانہ حملہ کرتے ہوئے مسجد اور سکول پر بم برسا دیے جس کے نتیجے میں 24 افراد شہید اور 93 زخمی ہوئے۔ علاوہ ازیں، اسرائیلی فضائیہ کے لبنانی دارالحکومت بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے میں نئے اور پرتشدد حملے نے ہلچل مچا دی اور دھماکوں سے ہونے والی تباہی کے بعد آسمان پر دھواں چھا گیا،25کے قریب افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے جبکہ حزب اللہ نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل پر راکٹ برسا دیے جس سے کئی علاقوں میں آگ لگ گئی۔
پاکستان سمیت مسلم ممالک کی طرف سے کی جانے والی مذمتوں اور جارحیت روکنے کے مطالبات کے باوجود غاصب صہیونیوں کے ہاتھ نہیں رک رہے اور وہ مسلسل معصوم فلسطینیوں کو شہید کرتے جارہے ہیں بلکہ اب تو انھوں نے جنگ کا دائرہ¿ کار بڑھا کر لبنان اور یمن کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور ایران کو بھی بار بار دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اس پوری صورتحال میں اقوامِ متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کا کردار کٹھ پتلیوں جیسا ہے جو امریکا کے اشاروں پر ناچنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتیں۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو آج نہیں تو کل اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا ہی ہوں گے کیونکہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ صرف فلسطین ہی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہر ریاست کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

مزیدخبریں