علی امین گنڈا پور کی ’گمشدگی‘ اور ’بازیابی‘

فخر سے نہیں بلکہ گنہگار کی طرح ہاتھ اٹھاکر اعتراف کرتا ہوں کہ 35سے زیادہ برس محلاتی سازشوں کو بہت قریب سے دیکھنے کے باوجود میں اب بھی کئی حوالوں سے انتہائی سادہ ہوں۔ غالباً یہ والدہ مرحومہ کا ورثہ ہے جو اتنی نیک طینت تھیں کہ جب انھیں نامی گرامی وارداتیوں کے جرائم پر مشتمل کہانیاں سنائی جاتیں تو ماننے سے انکار کردیتیں۔ ان کی زبان سے ’سب دا بھلاتے سب دی خیر‘ ورد کی طرح مستقل سننے کو ملتا اور نفسیات دان کہتے ہیں کہ کانوں میں آئے الفاظ سب سے زیادہ بااثر ہوتے ہیں۔

بہرحال اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ چند ہفتے قبل جب راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے ایک مقام سنگ جانی پر دھواں دھار خطاب کے بعد اچانک غائب ہوگئے تھے تو انتہائی بااعتماد ذرائع کی مہربانی سے مجھے خبر ہوگئی کہ وہ کہاں گئے تھے۔ وہاں ان سے جو گفتگو ہوئی اس کی تفصیلات کا بھی علم ہوگیا۔ ان کے ساتھ اختیار کیے لب ولہجے نے لیکن مجھے اداس کردیا۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری بخوبی آگاہ ہیں کہ میں تحریک انصاف کی سیاست کا بسااوقات متعصب سنائی دینے کی حد تک نقاد رہا ہوں۔ علی امین گنڈا پور اپنی جگہ لاہوری زبان والی ’فلم‘ ہیں۔ ایسے افراد کے ساتھ ہمدردی کے جذبات ہی دل میں پیدا نہیں ہوتے۔ دل کو مگر یہ سوچتے ہوئے ملال ہوا کہ علی امین گنڈاپور ہمارے ملک کی ایک مقبول ترین جماعت کے نامزد کردہ اور خیبرپختونخوا اسمبلی سے باقاعدہ منتخب شدہ وزیر اعلیٰ بھی ہیں۔ سنگ جانی کے جلسے میں ہوئی ان کی تقریر کئی اعتبار سے قومی سلامتی کے نگہبانوں کے لیے یقینا ’اشتعال انگیز‘ تھی۔ وہ تقریر کرلینے کے بعد علی امین صاحب کو ازخود وضاحتیں دینے کے لیے ایک ایسی عمارت جانے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی جس کا سیاسی معاملات سے براہ راست تعلق نہ ہونا ہی بہتر ہے۔ بہرحال گنڈاپور صاحب مارگلہ روڈ کے خاتمے کے بعد پارلیمان وسپریم کورٹ کی طرف جانے والی سڑک پر موجود ایک عمارت میں چلے گئے۔ وہاں کئی گھنٹوں تک اپنے ’حقیقی‘ جذبات وخیالات بیان کرتے رہے۔ ان کے حامی مگر مصر رہے کہ موصوف کو ریاستی اداروں میں سے کسی ایک نے اغواء کرلیا ہے۔ بالآخر وہ ازخود کئی گھنٹوں تک عوام اور میڈیا کوشش وپنج میں مبتلا رکھنے کے بعد نمودار ہوگئے ۔ فقط یہ کہتے ہوئے جند چھڑالی کہ وہ قومی سلامتی سے متعلق ایک اہم میٹنگ میں شریک تھے۔
مذکورہ واقعہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے دو ٹکے کے اس صحافی کو کامل یقین تھا کہ اپنے قائد کے حکم کے مطابق وہ 4اکتوبر2024ء بروز جمعہ اپنے صوبے سے ایک بڑے قافلے کے ہمراہ اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔ مقامی انتظامیہ ان کے دھاوے سے گھبراکر اسلام آباد کو کنٹینروں سے بنائی دیواروں میں محصور کرنے کو مجبور ہوگئی۔ اب کی بار عوام کو پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کے لیے جمعہ کی صبح سے سیل فونز کے سگنل بھی بند کردیے گئے۔ صرف وہ لوگ ہی واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ استوار کرسکتے تھے جن کے گھر میں وائی فائی نصب ہیں یا جنھوں نے انٹرنیٹ سے رابطہ استوار کرنے والا کوئی موبائل آلہ خریدرکھا ہے۔
جمعرات کی سہ پہر مجھے یہ خبر مل چکی تھی کہ کائیاں مگر سادہ نظر آنے والے علی امین گنڈاپور اسلام آباد پر دھاوا بولتے ہوئے اپنے صوبے کی پولیس کو وردی سمیت اپنے ہمراہ نہیں لے جائیں گے۔ تحریک انصاف 2013ء سے خیبرپختونخوا میں برسراقتدار ہے۔ اتنا عرصہ گزارنے کے بعد اس جماعت کے وزیر اعلیٰ کے لیے صوبائی پولیس سے ایسے 250سے 300کے درمیان اہلکار ڈھونڈنا ناممکن نہیں تھا جو دل وجان سے عاشقان عمران خان بھی ہوں۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس یہ جوان علی امین کی گاڑی کے ساتھ سائے کی طرح چمٹے رہے۔ اس کے علاوہ ہجوم میں بھی سادہ کپڑوں میں ملبوس کئی اہلکاروں کو جدید ترین آنسو گیس اور اسے پھینکنے کے آلات فراہم کردیے گئے تھے۔ پنجاب کی حد میں داخل ہوجانے کے بعد اس کی وجہ سے ہمیں آنسو گیس ’یک طرفہ‘ نہیں بلکہ دونوں جانب سے ہوتی نظر آئی۔
جمعہ کی رات گزرگئی تو ہفتے کی صبح اٹھنے کے بعد میں نے ایک متحرک صحافی سے رابطہ کیا۔ وہ خیبرپختونخوا کے حالات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اپنی عمر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اکثر موصوف کو خبریں ڈھونڈنے کی اذیت میں مبتلا کردیتا ہوں ۔ ہفتے کی دوپہر بھائی صاحب نے مجھے پیغام بھیجا کہ علی امین احتجاجی ہجوم میں موجود نہیں ہیں۔ اکثر لوگوں کو شبہ ہے کہ وہ احتجاجی ہجوم سے ’کھسک‘ چکے ہیں۔ ان کے حامی اگرچہ مصر ہیں کہ آنسو گیس کی بوچھاڑ نے ان کے گلے کو شدید تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ بخار کی حالت میں کسی گاڑی میں ہی لیٹے آرام کررہے ہیں۔
مجھے انگریزی محاورے والی ٹپ ملی تو دل میں عرصہ سے مردہ ہوا رپورٹر تھوڑا متحرک ہوا۔ اِدھر اُدھر وائی فائی کے ذریعے رابطے کیے تو خبر ملی کہ علی امین کو سیٹلائٹ فون کے ذریعے اسلام آباد میں ’مذاکرات‘ کی دعوت دی گئی ہے وہ جلد ہی اس شہر پہنچ جائیں گے۔ سچی بات ہے ذات کے رپورٹر نے اس ’خبر‘ کو ’گپ‘ گردانا۔ گاڑی پکڑی اور اسلام آباد کے ماحول کا جائزہ لینے طویل سفر کو روانہ ہوگیا۔ گھرلوٹا تو خبر ملی کہ گنڈاپور اپنے ہمراہ آنے والے قافلے سے جداہوکر ’اچانک‘ اسلام آباد کے چائنہ چوک پہنچے۔ وہاں سے خیبرپختونخوا ہائوس گئے۔ اس کے بعد مگر ’غائب‘ ہیں۔
تحریک انصاف کے مداحین نے دہائی مچانا شروع کردی کہ انھیں ’گرفتار‘ کرلیا گیا ہے۔ مقامی پولیس نے تردید کی تو کہانی یہ چلی کہ ریاستی ایجنسیوں نے انھیں ’مغوی‘ بنالیا ہے۔ ’اغواء‘ کے دعوے کو میں نے ایک لمحے کے لیے بھی قبول نہیں کیا۔ اتوار کی صبح تاہم خبر ملی کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کا ’ہنگامی اجلاس‘ طلب کرلیا گیا ہے۔ مجوزہ اجلاس کا واحد مقصد وفاقی حکومت کو علی امین کی ’گمشدگی‘ کا ذمہ دار ٹھہرانا تھا۔ میرا دل مگر اس شک میں مبتلا ہوگیا کہ علی امین ’ہنگامی طور‘ پر طلب کیے اجلاس کے دوران وہاں نمودار ہوجائیں گے۔ یہ طے کرنے کے باوجود اتوار کی شام ساڑھے سات بجے کے قریب میرا سادہ دل بھٹک گیا۔ میں نے غصے سے مغلوب ہوکر ایک ٹویٹ لکھی جس میں حیرت کا اظہار کیا کہ ہم جمہوری و آئینی ملک ہونے کے دعوے دار ہونے کے باوجود اس امر کی سنگینی کو محسوس ہی نہیں کررہے کہ خیبرپختونخوا جیسے اہم ترین صوبے کا ’چیف ایگزیکٹو‘ دودنوں سے لاپتا ہے۔
سادہ دلی کے ہاتھوں مجبور ہوکر لکھے اس ٹویٹ کے بارے میں اس وقت انتہائی شرمندگی محسوس ہوئی جب اتوار کی رات دھواں دھار تقاریر کے اختتام پر علی امین گنڈاپور ’اچانک‘ صوبائی اسمبلی میں داخل ہوگئے۔ وہاں جاتے ہی انھوں نے وزیر اعلیٰ کے لیے مختص نشست سے کھڑے ہوکر خطاب شروع کردیا۔ قوم کو یقین دلایا کہ وہ ہفتے کے دن خیبرپختونخوا ہائوس ہی میں موجود رہے۔ اسلام آباد پولیس کی بھاری بھر کم نفری کے ہوتے ہوئے بھی گنڈاپور جیب میں ایک پیسہ رکھے بغیر خیبرپختونخوا ہائوس سے باہر نکلے اور ’12اضلاع‘ سے گزرتے ہوئے بالآخر پشاور پہنچ گئے۔ اپنی گمشدگی اور بازیابی کی جو داستان انھوں نے سنائی وہ تحریک انصاف کے بے شمار چاہنے والوں کو قابل اعتبار سنائی دی ہے۔ وہ اگر اعتبار کررہے ہیں تو میں علی امین کی سنائی داستان میں جھول تلاش کیوں کروں؟

ای پیپر دی نیشن