سندیسہ ریسٹورنٹ اور بارہ ضلعوں کی پگ یاترا 

کیا مہینہ دو مہینے یا ہفتہ دو ہفتے پہلے شیخ الاحمر کا یہ بیان میڈیا پر آیا تھا کہ میں اگلے مہینے یا اگلے ہفتے گنڈاپور کو غائب ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں آیا، کم از کم میری نظروں سے نہیں گزرا۔ شیخ الاحمر کے نام پر حیران مت ہوئیے، یہ انھی لالو لال حویلی کے شیخ جی کا ذکر ہو رہا ہے جو ہر آنے والے واقعے کو مہینوں یا ہفتوں یا دنوں پہلے دیکھ لیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ شیخ جی نے اگر گنڈاپور کو غائب ہوتے نہیں دیکھا تو پھر وہ غائب کیسے ہو گئے۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا اور اگر پھر بھی یہ ہو گیا ہے تو اسے مظہر العجائب کی ’نان شیڈولڈ‘ کارروائی سمجھا جانا چاہیے۔ 

___________________
بہرحال گنڈاپور صاحب غائب ہوئے اور پورے 30 گھنٹے غائب رہے۔ وہ ایک عظیم الشان لشکر کی قیادت کرتے ہوئے پنجاب فتح کرنے کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ مرشد کا حکم تھا کہ پہلے اسلام آباد فتح کرنا ہے، پھر ڈی چوک پر جھنڈے گاڑ کر وہیں جم کر بیٹھ جانا ہے اور تب تک بیٹھے رکھنا ہے، اٹھنا نہیں ہے جب تک میں نہ کہوں اور میں 14 تاریخ سے پہلے اٹھنے کو نہیں کہوں گا۔ مطلب اس وقت تک نہیں اٹھنا ہے جب تک چینی وزیر اعظم کا دورہ پاکستان ملتوی ہونے کا باضابطہ اعلان نہیں ہو جاتا۔ 
گنڈا پور احمد شاہ ابدالی کے گیٹ اپ میں مشینی رتھ پر سوار ہوئے، لشکر چلا۔ سات ہزار جوان شریک لشکر تھے جن میں سے ڈیڑھ دو ہزار سرحد پار سے آئے تھے۔ راستے میں موسم اور سڑک کی ناہمواریوں اور کچھ دیگر اندیشہ ناک وسوسوں کی وجہ سے کچھ لشکری بیچ ہی سے پلٹ گئے۔ بہرحال اس کے باوجود تین ہزار کا لشکر جرار اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ ڈی چوک ابھی دو تین کلومیٹر دور تھا کہ گنڈاپور کو چہاس اور نہاس لاحق ہو گئی۔ چہاس یعنی چائے کی طلب، نہاس یعنی نہانے کی طلب چنانچہ ڈی چوک جانے کے بجائے وہ سی چوک میں رکے، اِدھر اُدھر دیکھا، رتھ سے اترے، مشینی بگھی پر سوار ہوئے اور کے پی ہائوس جا پہنچے۔ 
پھر خبر آئی کہ پولیس اور رینجرز نے انھیں گرفتار کر لیا ہے۔ حکومت نے اس خبر کی تردید کی لیکن پی ٹی آئی پہلے مصر ہوئی، پھر زیادہ مصر ہوئی اور اس کے بعد ازحد مصر ہوئی کہ انھیں گرفتار کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے متعدد سے کچھ زیادہ رہنمائوں نے دھمکی دی کہ پختونوں کی غیرت کو نہ للکارا جائے۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کے متعدد سے کچھ زیادہ لیڈر یہ اعلان کر چکے تھے کہ وہ دلہنیا لینے یا اٹھانے پنجاب آ رہے ہیں۔ بعدازاں کچھ ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے اس اعلان پر عمل نہ ہو سکا۔ 
30 گھنٹے گزرے تو گنڈاپور اچانک کے پی اسمبلی میں نمودار ہوئے اور ایوان میں سیر ناحاصل خطاب کیا یعنی طویل خطاب کے باوجود سامعین اور ناظرین تشنہ رہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گرفتار نہیں ہوئے تھے، کے پی ہائوس میں چھپے ہوئے تھے، پولیس ٹیم بار بار انھیں گرفتار کرنے کے لیے کے پی ہائوس آئی، ایک ایک کمرے کی تلاشی لی لیکن میں انھیں نظر نہیں آیا۔ گنڈاپور نے یہ نہیں بتایا کہ وہ سلیمانی ٹوپی انھیں کہاں سے ملی جس کے اوڑھنے سے وہ ’غائب‘ بن گئے البتہ انھوں نے غار حرا کی مثال دی (غار ثور کے بجائے) جہاں دو مقدس ترین ہستیاں پناہ لیے ہوئے تھیں اور حکم خداوندی کے تحت کافر انھیں نہ دیکھ سکے۔ گنڈاپور کے ’مرشد‘ اپنی ہر بات مثال پیغمبروں سے دیا کرتے ہیں اور ان سے موازنہ کرتے ہیں، پھر گنڈاپور کیوں پیچھے رہتے؟
یہ اور بہت سے دوسرے دعوے انھوں نے بار بار کلمہ پڑھ کردیے۔ 
یہ بات تو جملہ عوام جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما ہمیشہ ’سفید‘ سچ بولتے ہیں اور جب انھوں نے بہت سی سفید ، چٹا سفید ’سچ‘ بولنا ہو تو اس سے پہلے ایاک نعبد و ایاک نستعین یا درود شریف یا کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ میں نے خدا کو جان دینی ہے۔ سامعین فوراً ہی سمجھ جاتے ہیں کہ موصوف انتہائی ’چٹا سفید‘ سچ بولنے والے ہیں۔ 
________________
بہرحال جو حلقے چٹا سفید سچ نہیں بولتے ان کا دعویٰ ہے کہ گنڈاپور کے پی ہائوس میں بس چند ہی لمحے رہے، رات بھر نہیں۔ وہاں سے وہ سیدھا سندیسہ ریسٹورنٹ چلے گئے تھے۔ 
پچھلے کسی کالم میں کیفے سندیسہ کا ذکر کیا تھا۔ جہاں چائے سندیسے پر ملتی ہے یعنی جسے چائے پلانی مقصود ہو، کیفے کی انتظامیہ اسے خصوصی دعوت پر بلاتی ہے اور چائے پلاتی ہے۔ جسے نہ بلایا جائے ، وہ اس کیفے میں جا کر چائے نہیں پی سکتا۔ سنگ جانی والے جلسے کے بعد موصوف یعنی گنڈاپور نے اسی کیفے سندیسہ خصوصی دعوت پر جا کر ’لانگ ٹی‘ پی تھی۔ تو انھی کیفے سندیسہ والوں کی ایک ’اپ گریڈڈ‘ برانچ ، اسی اسلام آباد میں، کچھ ہی دور واقعے ہے جہاں چائے پلانے کے ساتھ ساتھ کھانا بھی کھلایا جاتا ہے، اسی لیے اس برانچ کو سندیسہ ریسٹورنٹ کہا جاتا ہے۔ یہ برانچ خاصی ’لگ_ ژو_ ری_ اس‘ سمجھی جاتی ہے۔ 
تو گنڈا پور نے اگلے 24 گھنٹے اسی ریسٹورنٹ میں گزارے۔ باقی 6 گھنٹوں میں سے کچھ وقت تو وہ کے پی ہائوس میں رہے اور کچھ وقت انھیں سندیسہ ریسٹورانٹ کی ٹرانسپورٹ میں پشاور پہنچنے، وہاں گھر جا کر پکڑے بدلنے، پھر اسمبلی پہنچنے میں لگا۔ 
________________
لیکن گنڈاپور سندیسہ ریسٹورنٹ کا ذکر، اپنی اسمبلی والی تقریر میں گول کر گئے اور کہا کہ وہ کے پی ہائوس سے فرار ہو کر، پیدل پشاور پہنچے، اس حال میں کہ ان کی جیب میں ایک روپیہ بھی نہیں تھا (ہو بھی نہیں سکتا تھا، ایک روپے کا سکہ باقی رہا نہ کرنسی نوٹ، سب سے چھوٹا کرنسی یونٹ ان دنوں پانچ روپیہ ہے)۔ 
انھوں نے بتایا کہ وہ بارہ ضلع کراس کر کے پشاور پہنچے۔ اسلام آباد اور کے پی کے درمیان کوئی اور ضلع نہیں ہے۔ اسلام آباد کی حدود ختم ہوتے ہی ہری پور کا ضلع ہے جو کے پی کا حصہ ہے۔ وہاں داخل ہوتے ہی ان کی گرفتاری کا خطرہ ختم ہو جاتا، وہ کسی بھی دفتر جا کر بتا سکتے تھے میں گنڈاپور ہوں، میری جیب میں ایک روپیہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ علاوہ ازیں، اسلام آباد سے پشاور کے راستے میں صرف تین ضلع آتے ہیں۔ ہری پوری، صوابی، نوشہرہ، پھر پشاور ہے لیکن گنڈاپور نے بارہ اضلاع عبور کر ڈالے۔ شاید وہ راستہ بھٹک کر آزاد کشمیر، وہاں سے مقبوضہ کشمیر، پھر سنکیانگ (چپن) جا نکلے ہوں، وہاں سے تاجکستان، کرغزستان، ازبکستان ، ترکمانستان اور پھر ایران جا پہنچے ہوں، ایران سے افغانستان اور پھر واپس پاکستان۔ لیکن یہ تو سب ملا کر 9 ’ضلعے‘ بنتے ہیں، چار نہیں۔ 3 ضلعے اب بھی کم ہیں۔ بہرحال ان کی ان بارہ ضلعوں کی یاترا سے مرشد کے اس منصوبے کا بیڑا بہت ہی اچھی طرح سے غرق ہو گیا جو انھوں نے چینی وزیر اعظم کا دورہ منسوخ کروانے کے لیے بنایا تھا اور ان کی دانست میں یہ بہت ہی فول پروف منصوبہ تھا۔ 

ای پیپر دی نیشن