غزہ پر اسرائیلی بربریت کے ایک سال مکمل ہونے پر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایوان صدر میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد حکومت کا اچھا فیصلہ ہے۔ اس اے پی سی میں شریک جماعتوں نے کم از کم مسئلہ فلسطین پر اتحاد کا مظاہرہ تو کیا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کو شرکت کرنا چاہیے تھی پی ٹی آئی کی طرف سے اس کانفرنس کا بائیکاٹ مناسب فیصلہ نہیں تھا۔ یہ کوئی سیاسی بیٹھک نہیں تھی بلکہ یہ اے پی سی فلسطین کے بہادر مسلمانوں کی حمایت اور اسرائیل کی مخالفت میں تھی۔ ایسے معاملات میں اندرونی سیاسی اختلافات کو درمیان میں لائے بغیر فیصلہ کرنے کی ضرورت تھی۔ بہرحال یہ پی ٹی آئی قیادت کا فیصلہ ہے وہ اس کی کچھ بھی وضاحت دیں لیکن مسئلہ فلسطین کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے سیاسی اختلافات کوئی معنی نہیں رکھتے، آج یہ کام پی ٹی آئی نے کیا ہے مستقبل میں اگر کوئی اور سیاسی جماعت ایسا کرتی ہے تو وہ بھی غلط ہو گا۔ ایسے معاملات پر اتحاد اور متفقہ رائے ہونی چاہیے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے 2 ریاستی حل کی مخالفت کی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف نے مسئلہ فلسطین پر ہونے والی حکومتی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف، صدر مملکت آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو ، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم سمیت کئی سیاسی رہنما شریک ہوئے۔ حکومت پاکستان کو اس اہم ترین مسئلے پر اپنا موقف دنیا کے سامنے مضبوط انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ مسئلہ فلسطین کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر بھی دنیا کو جگائے رکھنے کی حکمت عملی پر شدت سے قائم رہنے کی ضرورت ہے۔
سات اکتوبر 2023 سے اسرائیل مسلسل فلسطین پر حملے کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ حالت جنگ میں ہے۔ گذرے ایک برس میں بالخصوص دنیا نے انسانیت کے نام نہاد علمبرداروں کے دوہرے معیار کو بڑی شدت کے ساتھ بے نقاب کیا ہے ۔ اسرائیل کے فلسطین پر مسلسل حملوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا میں کسی بھی جگہ انسانیت کا درس صرف اس جگہ، خطے اور علاقے میں دیا جائے گا جہاں عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کا کوئی مفاد ہو گا۔ ورنہ انسان مرتے رہیں، خون بہتا رہے، تباہی ہوتی رہے، بچے روتے رہیں، خواتین چیختی چلاتی رہیں، بزرگ بے بسی کی تصویر بنے رہیں، جوانوں کا خون بہتا رہے کسی کو فرق نہیں پڑتا فلسطین میں یہی ہوا ہے۔ اسرائیل نے تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی بھی عائد کر دی کیونکہ انتونیو گوتریس نے اقوام متحدہ کی بے بسی بتا دی ہے، وہ مختلف وقتوں میں اسرائیلی افواج کے مظالم پر تنقید بھی کرتے رہتے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے فلسطینیوں کی مدد کا اختیار نہیں رکھتے۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک جو ہر وقت بنیادی انسانی حقوق کا راگ الاپتے ہیں وہ ہزاروں مسلمان خواتین اور بچوں کی شہادت کے باوجود خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے لیکن اقوام عالم کی بے حسی سوالیہ نشان ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فلسطین میں ہونے والی تباہی ایسے علاقے میں ہے جہاں مسلمان بستے ہیں، بہنے والا خون مسلمانوں کا ہے، کٹنے والے گلے مسلمانوں کے ہیں۔
*اسرائیل بربریت کا اندازہ ان تکلیف دہ اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکتوبر 2023ء تا اکتوبر 2024ء تک غزہ میں اکتالیس ہزار سے زائد شہادتیں اور پچہتر ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر دو سو افراد شہید کئے گئے، مزید دس ہزار سے زائد لاشیں عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہونے کے خدشات ہیں، شہید ہونے والے بچوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ لگ بھگ بیس ہزار بچوں کے ماں اور باپ دونوں شہید کر دیئے گئے ہیں۔ اسرائیلی فوجیوں کی بربریت بارے یو این ہیومن رائٹس کونسل کی انکوائری رپورٹس کا مطالعہ کریں تو حقیقت کھلتی ہے کہ فلسطین میں کس سطح پر مظالم ہو رہے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بعد اسرائیلی جارحیت جاری ہے۔ اسرائیل کی سفاکانہ بمباری سے غزہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔ محتاط اندازے کے مطابق
41870 فلسطینی شہید ، 12000 خواتین شہید‘ 16500 بچے شہید ہو چکے ہیں، 96800 سے زائد افراد زخمی ، 174 میڈیا ورکرز جاں بحق، 1150 پیرامیڈیکس شہید، تقریباً 370000 عمارتیں تباہ‘ 79 ہزار رہائشی اور کمرشل عمارتیں مکمل طور پر ملیامیٹ ، 90 فیصد فلسطینی بے گھر، 600 مساجد شہید، 3 گرجا گھر مٹی کا ڈھیر‘ 800 سکول تباہ سو فیصد بچے تعلیم سے محروم‘ 36 میں سے 26 ہسپتال مکمل طور پر تباہ ‘ 10 ہسپتال جزوی فعال، 67 فیصد روڈ نیٹ ورک مکمل تباہ، اقوام متحدہ اس معاملے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ امریکی ہٹ دھرمی اپنی جگہ برقرار ہے۔
عالمی سطح پر مختلف ممالک میں عوامی سطح پر ہونے والے احتجاج بھی غزہ کے مظلوم عوام کو انصاف نہ دلا سکے۔ اقوام متحدہ کے متعدد اجلاس ہوئے لیکن ایک سال میں صرف ایک قرار داد ہی منظور ہو سکی۔
18 اکتوبر کو سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق پہلی قرار داد پیش کی گئی۔ جسے امریکا نے ویٹو کر دیا۔ آٹھ دسمبر کو غزہ میں جنگ بندی کیلئے دوسری قرارداد آئی جس کی راہ میں بھی امریکا رکاوٹ بن گیا۔ بیس فروری کو امریکا نے قرار داد کو ویٹو کرنے کی ہیٹ ٹرک کی روس چین اور دیگر ممالک کی کوششوں پر پانی پھیر دیا گیا۔
عالمی عدالت انصاف میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ پیش ہوا لیکن اسرائیلی درندگی نہ رک سکی۔
سعودی عرب نے غزہ کی صورتحال پر او آئی سی اجلاس بلایا جس میں 57 ممالک نے ٹھوس موقف دنیا کے سامنے رکھا ناروے‘ آئرلینڈ اور سپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، اوآئی سی کا اجلاس ہوا
مصر اور قطر نے جنگ بندی کی کوششیں کیں لیکن امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی پشت پناہی پر نیتن یاہو حکومت نے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رکھی۔ اب امریکہ کے صدر نے کہا ہے ان کی حکومت نے اسرائیل کی سب سے زیادہ مدد کی ہے اور اسرائیل کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جنوبی افریقہ نے غزہ کا مقدمہ عالمی عدالت انصاف کے سامنے پیش کیا۔ جہاں اسرائیلی جارحیت کو جنگی جرم قرار دیا لیکن پھر بھی دہشت گرد اسرائیل ٹس سے مس نہیں ہوا اور غزہ کو کھنڈر بنا دیا۔ پاکستان نے مختلف موقع پر فلسطین کی حمایت جاری رکھی ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بار پھر تنازع کے دو ریاستی حل پر زور دیا۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ غزہ میں بڑا المیہ رْونما ہو رہا ہے۔ وہاں بچے زندہ دفن ہو رہے ہیں اور جل رہے ہیں۔ لیکن دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پاکستان اس تنازع کا دو ریاستی حل چاہتا ہے جس میں آزاد فلسطینی ریاست میں 1967 کی جنگ سے پہلے کے علاقے شامل ہوں اور بیت المقدس اس کا دارالحکومت ہو۔ اقوامِ متحدہ فلسطین کو مکمل رکن تسلیم کرے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے لبنان کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے چند روز قبل کہا کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی اور بگڑتی صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ خطے میں اسرائیلی جارحیت سے سنگین انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔ عالمی برادری کو موجودہ کشیدگی کم کرنے کے لیے فوری کارروائی کرنا چاہیے۔ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں عالمی قوانین اور یو این چارٹر کی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ غزہ میں جاری نسل کشی سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا۔ لبنان پرحملے نے کشیدگی میں مزید شدت پیدا کی ہے۔ جس سے بے گناہوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ فلسطین، لبنان سمیت خطے کے لوگ خوف اور تشدد سے آزاد زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں۔ تمام فریقین کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن سے پیچھے ہٹیں۔ دشمنی میں کمی اورتنازعات کے حل کیلئے امن کو ترجیح دیں۔ استثنیٰ کا کلچر ختم کر کے بین الاقوامی قوانین کی پامالی روکنے کی جانب فوری توجہ دی جائے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل خطے میں امن برقرار رکھنے کیلئے کردار ادا کرے۔ پاکستان نے بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ اور جامع حل کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی کلید کے طور پر دو ریاستی حل کی ہمیشہ وکالت کی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ موقف اختیار کیا ہے کہ غزہ کی صورتحال پر عالمی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان ہے، پاکستان غزہ پرجاری اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج نہتے فلسطینیوں کو سفاکیت کا نشانہ بنارہی ہیں، محفوظ پناہ گاہوں میں پناہ گزین فلسطینیوں کو نشانہ بنانا عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، اسرائیلی فورسز غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ایک طرف اسرائیل مسلمانوں پر مظالم ڈھائے رہا ہے تو دوسری طرف مسلمانوں ممالک اسے وسائل فراہم کر رہے ہیں بھلے یہ خرید و فروخت ہی ہے لیکن اس خرید و فروخت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔اسرائیل کو خام تیل کا 71.2 فیصد 3 اسلامی ملک (آذربائیجان 44.7 فیصد )، قازقستان 20.8 فیصد اور نائجیریا 5.7 فیصد فراہم کرتے ہیں۔ تینوں او آئی سی کے رکن بھی ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ او آئی سی میں قرارداد کے ذریعے اسرائیل کو اسلامی ممالک سے تیل فراہم کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ مسلمانوں کے حالیہ قتل عام اور نسل کشی میں اسرائیل کا سب سے بڑا مددگار امریکہ ہے۔ امریکہ سالانہ 3.8 ارب کی مالی امداد دے رہا ہے۔ آئرن ڈوم بھی اسی رقم سے بنا ہے۔ بائیڈن نے گزشتہ 1 برس میں اضافی 14 ارب ڈالر کا اسلحہ اور امداد فراہم کیا ہے یو این سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کیخلاف امن قرارداد کا ڈرافٹ 3 بار ویٹو کیا۔ اسرائیل کو 66 فیصد جنگی ہتھیار امریکہ فراہم کر رہا ہے۔
اسرائیل پر جنگ کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی نے کریڈٹ ریٹنگ اے پلس سے اے کر دی ہے۔ بجٹ خسارہ میں گزشتہ ایک سال میں نوے فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فوجی اخراجات 93 فیصد بڑھ گئے ہیں اور تعلیم و صحت کے بجٹ پر کٹوتی کا سوچا جا رہا ہے۔ اسرائیل کی معیشت جنگ کے بعد 20.7 فیصد سکڑ گئی ہے۔ آکسفورڈ اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق رواں برس 60 ہزار کمپنیاں ، فلسطینی علاقوں سے آنیوالی لیبر فورس اور لاجسٹکس مسائل کے باعث بند ہوجائیں گی۔ ملکی قرضے 2025ء میں جی ڈی پی کے 72 فیصد تک بڑھ جائیں گے۔ کوویڈ 19 کے دوران شدید عالمی کساد بازاری کے دوران بھی یہ شرح 71 فیصد رہی تھی۔
دنیا میں امریکہ اور اس کے اہم اتحادی کبھی فلسطین کے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ یہ مسئلہ مسلمان ممالک کی توجہ، اتحاد اور دلیرانہ فیصلوں سے حل ہو گا۔