اسلام آباد (عترت جعفری)آل پارٹیز کانفرنس نے جو فلسطین میں ہونے والی ظلم کے حوالے سے تھے ، سیاسی قیادت کو بہت دنوں کے بعد ایک چھت کے نیچے بات چیت اور رابطوں کا موقع فراہم کیا البتہ تحریک انصاف نے مسئلہ فلسطین پر ہونے والی حکومتی اے پی سی میں شرکت نہیں کی ، کانفرنس کے آغاز سے پہلے صدر زرداری اور جے یو ائی کے امیر مولانا فضل الرحمن کے درمیان ’ ون آن ون ‘ ملاقات بھی ہوئی،اس دوران قومی رہنماؤں کی آمد کا سلسلہ جاری ہوا اور ایک بڑی نشست گاہ میں بیٹھنا شروع ہوئے اور آپس میں بات چیت کرتے رہے ، نواز شریف وزیرآعظم کے ہمراہ ایوان صدر آئے ان کی صدر مملکت کے ساتھ علیک سلیک ہوئی تا ہم کوئی الگ سے میٹنگ نہیں ہوئی ، تاہم محمد نواز شریف جو مسلم لیگ ن کے قائد بھی ہیں وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ رہنماؤں کے ساتھ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد کانفرنس روم میں داخل ہوئے ،نشست گاہ میں ہی ان کی بلاول بھٹو زرداری سے دعا سلام ہوئی ، مولانا فضل الرحمن صدر مملکت سے ملاقات کے بعد نشست گاہ میں آئے ، کانفرنس کے دوران کوئی باقاعدہ کھانا نہیں دیا گیا تا ہم ایک ’ ورکنگ سپر‘ دیا گیا ، اے پی سی کے دوران نماز کا وقفہ دیا گیا جس کے بعد دو رہنماؤں نے خطاب کئے جن میں بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں اور اس کے بعد وزیر خارجہ نے کانفرنس کا اعلامیہ پیش کیا کانفرنس کے اعلامیہ میں اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کے پس منظر میں دو الگ الگ ریاستوں کی بجائے صرف فلسطین کی ایک الگ ریاست کی بات کی گئی ہے جس کا کیپیٹل القدس الشریف بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ، کانفرنس کے شرکاء کی تعداد 40 کے قریب بتائی گئی ہے, کیونکہ رہنما وفود کے ساتھ آئے ،ان میں مسلم لیگ ضیا کے صدر اعجاز الحق بھی شامل ہیں،کانفرنس سے خطاب کرنے والوں میں جان محمد بلوچ ، علامہ ناصر عباس سابق نگران وزیر آعظم انوار الحق کاکڑ ، سنی تحریک کے ثروت قادری ‘ حسین مقدسی (ٹی این ایف جے ) مولانا طاہر اشرفی شامل تھے اور وزیراعظم نے سب سے آخر میں خطاب کیا جس کے بعد اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا ، کانفرنس کے اختتام پر وفاقی وزیر قانون اور سینٹر شیری رحمان نے مختصر سی گفتگو کی جس میں انہوں نے کانفرنس میں ہونے والی کاروائی کو دہرایا ، اے پی سی کا آغاز مولانا عبدالغفور حیدری کی جانب سے تلاوت کلام سے کیا گیا، آل پارٹیز کانفرنس میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔