7اکتوبر سیاہ دن مذمتی قراداد منظور: غزہ میں اسرائیلی مظالم رکوائے جائیں : اے پی سی 

  اسلام آباد( نوائے وقت رپورٹ + اپنے سٹاف رپورٹر سے )  وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین میں جو ظلم و بربریت مچایا وہ کبھی انسانی آنکھ نے نہیں دیکھا، جس انداز سے معصوم شہریوں کو قتل کیا جارہا ہے اْس پر عالمی قوتیں بھی خاموش ہیں، فلسطین پر ا?واز اٹھانے کیلیے ماہرین کا ایک گروپ بنا کر دنیا کے اہم ممالک میں بھیجیں گے۔وزیراعظم نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے ا?غاز میں ا?ل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر صدر مملکت جبکہ شرکت پر تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کا شرکت پر بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی کسی اندرونی اور بیرونی چیلینج کا سامنا ہوا تو ساری سیاسی اور مذہبی قیادت اکھٹی ہوئی اور ٹھوس تجاویز پیش کر کے عملی جامہ پہنانے کیلیے بھرپور تعاون کیا، ا?ج کا دن بھی اْس کی روشن مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں ہونے والی تقاریر میں عقل و دانش اور جذبات شامل ہیں، میں نے سب کی باتوں کو غور سے سْنا، یہ اجتماعی سوچ اور فکر میرے اور ہم سب کیلیے بہت حوصلہ افزا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہاں پر بہت اہم باتیں ہوئیں، بالخصوص فلسطین کے حوالے سے عالمی دنیا کے کردار اور عالم اسلام کو ا?گے بڑھ کر مدد کا تذکرہ کیا گیا، اسی کے ساتھ قائد اعظم کے فرمان یا 1940 میں قرارداد پاکستان کی باتوں کی تائید نہیں کرنی چاہیے بلکہ فلسطین کی ا?زاد ریاست کی بات کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ا?ج اجلاس کے بعد جو قرارداد متفقہ طور پر پیش کی جائے تو میری خواہش ہے کہ اْس میں فلسطین کی ا?زادی اور القدس شریف دارالخلافہ ہونا چاہیے، چاہے نگراں حکومت تھی یا ا?ج کی مخلوط حکومت، کوئی بھی پاکستانی بدترین ظلم و ستم اور خونریزی جسے کسی انسانی ا?نکھ نے دیکھا نہ سْنا، بچے، مائیں شہید ہوئیں اور شہروں کے شہر تباہ ہوئے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں بھی یہی صورت حال ہے اور وہاں کی وادی بھی کشمیریوں کے لہو سے سرخ ہوچکی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کا خون سستا ہے؟ ا?ج عالمی ضمیر کو 42 ہزار شہادتوں کے بعد جاگنا چاہیے ، ا?ج وقت ا?گیا ہے کہ تمام قوتیں جمع ہوکر اس خونریزی کو بند کروائیں۔شہباز شریف نے کہا کہ فلسطین میں ہونے والی خونریزی کو بند کروانا ہماری اولین ترجیح ہے، اس کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کا پلیٹ فارم ہے، ا?ج ہی ماہرین کا ایک گروپ بنائیں گے جو سیر سپاٹے کیلیے نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین کو دنیا کے اہم درالخلافوں میں جاکر پاکستان اور عالم اسلام کا پیغام پہنچائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اراکین دنیا کو جاکر بتائیں گے کہ یہ زخم رہتی دنیا تک بھر نہیں سکیں گے اور دنیا کے سامنے ظلم کو بے نقاب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطین کی نمائندگی کی کوشش کی، پھر جب نیتن یاہو ا?یا تو ہم نے واک ا?ؤٹ کیا، جیسے ہی وہ ایوان میں ا?یا ہمارے پورے وفد نے واک ا?ؤٹ کیا۔وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ فلسطین میں فوری طور پر جنگ بندی ہونی چاہیے اور اس کے لیے ہم اسلامی ممالک کے ساتھ ملکر ا?واز اٹھائیں گے، ہمیں ا?ئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو نہیں دیکھنا چاہیے، خدشہ تھا کہ اقوام متحدہ میں فلسطین کاز پر ا?واز اٹھانے کی وجہ سے ہمیں کوئی سزا ملی تو ہم اْسے پورا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ملک سے غربت ختم کر کے اور قوم کو متحد کریں گے تو پھر دنیا ہماری بات سنے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ فلسطینیوں کیلیے امدادی سامان میں اضافہ کیا اور مستقبل میں بھی حصہ ڈالیں گے۔  وزیراعظم نے مزید کہا کہ کانفرنس میں تجویز ا?ئی جس کی روشنی میں مستقبل میں فلسطینی طالب علموں کے داخلے میں اضافہ کیا جائے گا، سرکاری یونیورسٹیز میں انہیں داخلے دیے جائیں گے۔شہباز شریف نے ا?ل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کو کامیاب قرار دیتے ہوئے دعا کی کہ فلسطین میں قتل عام اور خونریزی بند ہو، جلد جنگ بندی ہو اور پاکستان سمیت تمام عالم اسلام کے ممالک فلسطینیوں کے لیے کردار ادا کریں۔وزیراعظم شہباز شریف نے ایوان صدر سے روانہ ہوتے وقت میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرارداد منظور ہو چکی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس بہت اچھی تھی۔ کانفرنس میں حوصلہ افزاء بات چیت ہوئی۔ مظلوم فلسطینیوں کیلئے اچھی تجاویز دی گئیں۔ فوری جنگ بندی کیلئے پوری کوشش بروئے کار لائیں گے۔ اسلامی ممالک کے ساتھ بھی رابطے کریں گے۔علاوہ ازیں ایوان صدر میں اے پی سئی کے موقع پر صدر زرداری، نواز شریف ، مولانا فضل الرحمان اور  وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات ہوئی، بلاول بھٹو زرداری اور اسحاق ڈار نے بھی ملاقات مین شرکت کی ، ملاقات میں ملک کی سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیاگیا ۔ 

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نوائے وقت رپورٹ) ایوان صدر میں فلسطین پر آل پارٹیز کانفرنس شروع ہوگئی جس میں بڑی تعداد میں سیاسی جماعتوں کے سربراہان و رہنما شریک ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر مشرق وسطی کی صورتحال اور فلسطین کے موضوع پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی۔ کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ج ،میعت علماء  اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، اے این پی کے سربراہ  ایمل  ولی خان , جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمن ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی ، قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق ، چیئرمین سینٹ  یوسف رضا گیلانی ، استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ علیم  خان ، مسلم لیگ ق کے چودھری سالک حسین ، اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے مسئلہ فلسطین پر وزیراعظم کی جانب سے طلب کردہ اے پی سی میں شرکت نہیں کی۔پیر کو ایوان صدر میں منعقد فلسطین اور غزہ کی صورتحال پر آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے کہا ہے ہم سب کو اکٹھے ہو کر پالیسی بنانا پڑے گی ورنہ بچوں پر ظلم ہوتا دیکھتے رہیں گے، اسرائیلی جارحیت کے سامنے خاموشی اختیار کرنا انسانیت کی ناکامی ہے، بڑی بڑی عالمی قوتیں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہی ہیں، اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر کے مسئلوں پر اگر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرا سکتا توایسے ادارے کا کیا فائدہ ہے، اسلامی ممالک کے پاس بہت بڑی قوت ہے ،عالم اسلام کو مل بیٹھ کر غزہ اور فلسطین کی صورتحال پر فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں۔ دنیا نے اس صورتحال سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جس طرح فلسطینیوں کا مقدمہ مؤثر انداز میں پیش کیا، بڑے پیمانے پر ان کے خطاب پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کو بھی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کی فکر نہیں ہے،کشمیر پر قراردادوں پر بھی ابھی تک عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا۔ اسلامی ممالک بہت بڑی قوت ہے اس کا استعمال آج نہیں کریں گے تو کب کریں گے ، کب تک فلسطینیوں کے صبر کا امتحان لیں گے ۔پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے ۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو فلسطین بالخصوص غزہ میں جاری اس قتل عام سے روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے ۔پاکستان اسرائیل کی بربریت کی مذمت کرتا ہے ۔آصف زرداری نے کہا کہ اسرائیل  کے اقدامات سے عالمی امن کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔  ہم عالمی برداری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے اور تنازع مزید نہ پھیل سکے۔ پاکستان فلسطینیوں کے حقوق کو سپورٹ اور دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہے گا جو مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کی ضمانت ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل ایک ناسور ہے اور اس کا فیصلہ 197 میں برطانیہ  کے وزیر خارجہ میں ایک جبری معاہدہ کے تحت  کیا تھا اس وقت فلسطین کی سرزمین پر یہودی بستیاں قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ،  جب اسرائیل قائم ہوا تو وہ قائد اعظم نے اسے ناجائز بچہ کہا تھا ، انہوں نے کہا کہ اسرائیل پر حماس نے حملہ کیا  اس دن سے مسئلے کی نوعیت تبدیل ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں دو ریاستوں کی بات کی جا رہی ہے ، جے یو ائی اس کو تسلیم نہیں کرتی ،ہم سارے فلسطین کو ایک ریاست دیکھنا چاہتے ہیں ، مسلمان امہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے،یہ ایک جرم ہے اور پاکستانی اس جرم میں شریک ہیں ۔ حماس امریکہ یا یورپ کی نظر میں دہشت گرد تنظیم ہو سکتی ہے ہماری نظر میں وہ نہیں ہے۔ حکومت کو مسلم ممالک کا گروپ بنانا چاہیے جس میں پاکستان سعودی عرب کی مصر، ملائشیاء ہوں اور وہ ایک پلیٹ فارم قائم کریں اور مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے۔  جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطین میں گزشتہ سال سے اب تک 85 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے ۔ اسرائیل انسانیت کے خلاف بدترین عمل سرانجام رہا ہے اور اسے نسل کشی کہا جائے گا۔ دو ریاستی حل کی بات کا مطلب پاکستان کے اسرائیل سے متعلق اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹنا ہے، ۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو نے گریٹر اسرائیل کی بات کی اور اجلاس کے دوران ہی اس نے لبنان پر حملہ بھی کیا، اسرائیل غزہ میں براہ راست فاسفورس بم پھینک رہا ہے، کل کو ہمارے بچوں کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا۔  اسرائیل کی بنیاد دہشت گردی ہے اور ان سے کوئی توقع نہیں کی جانی چاہیے، امریکا اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی ہے، پاکستان میں حماس کا افس قائم ہونا چاہیے ،امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ میں ڈرنا نہیں چاہیے ،ہمیں غیرت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ، اسلامی ممالک کے افواج کا سربراہان کا اجلاس بلایا جائے ، اور ہم خیال ممالک کے اجلاس کو بھی بلا ئیں ، ہمیں لابی اور ڈپلومیسی کی ضرورت ہے ، ہمیں کوئی پسپائی اختیار نہیں کرنا چاہیے ،سعودی عرب ایران کو اگے بڑھ کر اور ادا کرنا چاہیے ۔چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زراداری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پوری دنیا کو پاکستان ایک غریب ملک کے طور پر نظر آتا جہاں پر معاشی مسائل ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں لیکن جہاں فلسطین کا مسئلہ ہوگا وہاں ہر پاکستانی ایک ہوگا۔کچھ بین الاقوامی قوتوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان ایک پیچ پر نہیں ہیں، آج کا یہ فورم تمام سیاسی جماعتوں کے توسط سے ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ہم فلسطین بہنوں اور بھائیوں کیساتھ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں ہر پاکستانی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کی تقریر کے دوران بائیکاٹ شہباز شریف کا ایک دلیرانہ فیصلہ تھا ۔ ہم سیاسی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں اور اگر خدانخواستہ وزیراعظم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے تو اس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اپ کا ساتھ دیں گے۔ پاکستان اور مسلم امہ نے بین الاقوامی سطح پر صیہونی ایجنڈے کوبے نقاب کرنا ہے ۔  7 اکتوبر اور مغوی صرف بہانہ ہے، اس کے پیچھے اسرائیل فلسطین، لبنان اور مصر پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

اسلام اباد  (نمائندہ خصوصی+اپنے سٹاف رپورٹر سے+نوائے وقت رپورٹ)  ایوان صدر میں منعقدہ ال پارٹیز کانفرنس کے جاری منظور شدہ اعلامیہ اور متفقہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ فلسطین کی آزاد, اور محفوظ ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہونا چاہیے، اقوم متحدہ کی مکمل رکنیت دی جائے۔ قراردار میں مطالبہ کیا گیا کہ کشمیری عوام کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے عین مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کو حل کیا جائے، وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا گیا ۔ قرارداد میں اسرائیلی کی نشل کشی میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ شہید کرنے ،حملوں اور صحافیوں کو قتل کرنے کی بھی مذمت ۔ غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی ،فلسطینی لوگوں پر مظالم اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ غزہ میں بغیر کسی رکاوٹ کے طبی امداد کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے، اسرائیل کو بین الاقوامی اور جنگی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے اور نشل کشی  کا ذمہ دار ٹھہرایاجانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ عالمی برادری اسرائیل کو لبنان اور دیگر ممالک پر مزید مظالم ڈھانے اور خطے کو مزید عدم استحکام کا شکار کرنے سے روکے۔او آئی سی، عرب لیگ، اقوام متحدہ اور دیگر برادرانہ ممالک کی طرف سے امن واستحکام کی کاوشوں کی حمایت۔ اسرائیلی جارحیت اور فلسطین کی ابتر صورتحال پر او آئی سی کا ایمرجنسی سمٹ بلانے اور امت مسلمہ میں اتحاد کی ضرورت پر زور۔18 ستمبر 2024 کو اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد اسرائیل کے قبضہ ختم کرانے کی قرارداد پر مکمل عمل کرنے ، عالمی عدالت انصاف کی جانب سے فلسطنیوں کی نسل کشی روکنے کے حکم پر عمل درامد کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ 2023 میں اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ اجلاس کے اعلامیے میں تمام ممالک کی جانب سے اسرائیل کو اسلحہ اور ایمونیشن فراہم کرنا بند کرنے کا مطالبہ پر عمل درآمد کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔اقوام متحدہ فلسطینی پناہ گزین کو ریلیف فراہم کرے۔ پاکستان کی جانب سے غزہ  اور لبنان کیلئے بھیجی جانے امداد کو سراہا گیا۔ مستقبل میں بھی فلسیطینی شہریوں کے لیے امداد بھیجنے کے سلسلے کو جاری رکھنے اور اسے دوگنا کرنے کے عزم کا اظہارکیاگیا۔ جبکہ  پاکستان تحریک انصاف نے مسئلہ فلسطین پر وزیراعظم کی جانب سے طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت نہیں کی۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نیا س حوالے سے کہا ہے کہ ہمیں اے پی سی میں شرکت کی دعوت مل گئی ہے لیکن ہم نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں پارٹی رہنما اور کارکن گرفتار ہیں اور ان حالات میں اے پی سی میں شرکت نہ کرنیکا فیصلہ کیا ہے، اس وقت پی ٹی آئی کا کوئی مرکزی رہنما اسلام آباد میں موجود نہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے اے پی سی سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کا پیغام تمام اسلامی ملکوں تک پہنچائیں۔ ہم نے سیاسی طور پر مظاہرے کئے ہیں لیکن مزید آگے بڑھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم اعلان کریں پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں فلسطین کے بچوں کو سپانسر کریں۔ حکومت‘ ریاست اور مخیر حضرات فلسطینی بچوں کی تعلیم کو سپانسر کریں۔ مذمت ہم کر چکے‘ مرمت ہم کر نہیں سکتے۔ رہنما بلوچستان عوامی پارٹی خالد مگسی نے کہا کہ ہمارے چیخنے سے اسرائیل کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ شور مچانے سے ان کو فرق نہیں پڑے گا۔ فلسطین کے لوگ نقصان میں نہیں وہ کامیاب ہو رہے ہیں۔ چودھری سالک حسین نے کہا کہ وزیراعظم نے جو یو این میں تقریر کی اس کا بھی بہت اثر ہوا۔ مسئلہ فلسطین کے حل کی طرف ہمیں سوچنا چاہئے۔ حقائق دیکھ کر ہمیں اس متعلق کوئی حکمت عملی طے کرنی چاہئے۔ رہنما آئی پی پی عبدالعلیم خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ فلسطین کیلئے ہم نے واقعی کچھ نہیں کیا۔ اسرائیلی بربریت کو ایک سال ہو چکا ہے۔ دنیا بے حس ہو چکی ہے ہم اسی ندامت کے ساتھ دنیا سے جائیں گے کہ فلسطینیوں کے لئے کچھ نہ کر سکے  ہم بہت ساری چیزوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ سربراہ اے این پی ایمل ولی خان نے کہا کہ سوچنا چاہئے کہ فلسطینیوں پر جو ظلم ہو رہا ہے اسے ختم کیسے کریں۔ احتساب ہمیشہ خود سے شروع ہوتا ہے۔ فلسطین کے ساتھ ہم کشمیر کی آزادی کی بھی بات کریں گے۔ افغانستان بھی مظلوم ملک ہے۔ اپنے ملک پر بھی ہم کو نظر ڈالنی چاہئے۔ نظریاتی طور پر آرمڈ ملیشیا ایک ہی بات کر رہے ہیں۔ جان محمد بلیدی نے کہا کہ اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو رہی۔ امریکہ اسرائیل کی مدد کر کے جنگ کو پھیلا رہا ہے۔ اسرائیل کو روکنے کے لئے پاکستان جتنی بھی کوشش کر سکتا ہے کرنی چاہئے۔ جنگ کے بادل ہمارے خطے کی جانب بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ راجا ناصر عباس نے کہا کہ آپ کے گھر پر کوئی قبضہ کر لے تو اس کو چھڑوانا آپ کا حق ہے۔ یہ نہیں کہیں گے کہ آدھا گھر تم رکھ لو۔ فلسطینیوں کا اسرائیل کے ساتھ لڑنا ان کا حق ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اسرائیل ایک غیر قانونی ریاست ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن