قوموں کی تاریخ میں قدرتی آفات اور حادثات رونما ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے اور ہر قوم اپنے وسائل اور منصوبہ بندی کے مطابق ان آفات اور حادثات سے نمٹنے کی کوشش بھی کرتی ہے تاکہ ہونے والے نقصانات کی روک تھام یا اس کی شدت کم سے کم کی جاسکے۔ ماضی قریب بیسویں اور اکیسویں صدی میں کئی تباہ کن زلزلے آئے جو لاکھوں جانوں کو لقمہ اجل بنا گئے، پلک جھپکتے ہی بے شمار انسانی بستیوں کوان زلزلوں نے تباہ و برباد کردیا۔8اکتوبر 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کو 19برس بیت گئے ہیں۔اس دن پاکستان اور آزاد کشمیرمیں خوفناک زلزلہ آیا تھا جس سے 87 ہزارافراد جاں بحق جبکہ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے یہ زلزلہ پاکستان کی تاریخ میں اب تک کی قدرتی آفات میں سب سے بڑی آفت تھااس روز کا سورج جب طلوع ہوا تو قدرت نے سارے تصورات،خیالات اورخود اعتمادی کو ایک جھٹکے میں زمین بوس کر دیا۔7.6کی شدت سے آنے والے زلزلے کی گہرائی 15کلومیٹر زیر زمیں تھی اس صبح آزاد کشمیر اور پاکستان میں قیامت صغریٰ کے بعدہر طرف دردناک مناظرتھے۔بچوں،بوڑھوں،جوانوںاور عورتوں کی چیخ و پکار دل کو لرزا دیتی تھی۔کہیں روتے بلکتے معصوم ننھے فرشتے اور کہیں اپنے پیاروں کی موت پر ماتم کرنے والے ،منہدم عمارتوں کے ملبہ میں پڑی روز مرہ کی اشیاء بتا رہی تھی کہ لوگ موت سے بے خبر اپنے کاموں میں مصروف تھے اور یکایک ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔اس قیامت صغریٰ میں بچ جانے والوں کی کیفیت بھی عجیب تھی،ایک طرف وہ نئی زندگی ملنے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کر رہے تھے اور دوسری طرف اپنے عزیزوں،دوستوں اور رشتہ داروں کی میتوں پر ماتم کر رہے تھے۔ہر طرف نفسا نفسی اور کرب کا عالم تھا۔ملبہ کے اندر سے آنے والی آوازیں دلوں کو ہلا دیتی تھیں۔کسی کے بس میں نہیں تھا کہ ملبہ ہٹا کر ان زندہ انسانوں کو باہر نکال کر زندگی کی نویددے سکے۔7.6کی شدت سے آنے والے اس زلزلے نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بہت سے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔لاکھوں افراد لْقمہ اجل بن گئے،مگر آزاد کشمیر میں اس کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ مظفرآبا د سمیت دیگر علاقوں کواس ہولناک زلزلے سے بہت نقصان پہنچا۔ بجلی، صحت، تعلیم،مواصلات اور ٹریفک کا سارا نظام درہم برہم ہو گیا۔یہ زلزلہ اْس وقت آیا جب ملازمین دفاتر کی جانب رواں دواں تھے،طالب علم سکول اور کالج کی طرف،جبکہ کئی معصوم ننھے فرشتے سکولوں کے صحن میں دعا میں مصروف تھے۔کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ آنے والی گھڑیاں اْس کے لیے قیامت بن کر آئیں گی،اور چند لمحوں میں کیا ہونے والا ہے۔اس زلزلے میں کئی ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جنہوں نے قدرت خداوندی کی گواہی بھی دی۔ترکی کے امدادی کارکنوں نے مظفرا ٓباد میں ایک 45 سالہ خاتون رشیدہ کو 105گھنٹے ملبہ میں دبے رہنے کے بعد زندہ نکال لیا۔اسی طرح امدادی کارکن ملبہ ہٹانے میں مصروف تھے کہ ایک 5سالہ بچی رینگتی ہوئی ملبہ میں سے باہر نکل آئی۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ بچی بغیر کھائے پئے چار دن تک زندہ و سلامت رہے گی۔مگر جسے اللہ رکھے اْسے کون چکھے۔متاثرہ علاقوں میں اْس دوران برف باری اور بارشوں کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات کا سامنا بھی رہا،مگر یہ بارش کئی لوگوں کے لیے رحمت کا باعث بھی بنی۔مظفرا ٓباد کا ایک 70سالہ شخص 80گھنٹے تک ملبے تلے بارش کا پانی جو ملبے کی درزوں سے اس تک پہنچتا رہا پی کر زندہ رہا۔یہ اور اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جنہوں نے انسانی عقل کو محو حیرت میں ڈال دیا۔آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا میں 8 اکتوبر 2005 کو آنے والے قیامت خیز زلزلے کی تباہ کاریاں اور لرزہ خیز یادیں 19 سال بعد بھی باقی ہیں۔ چند لمحوں کے اس ہولناک زلزلے سے 87 ہزار سے زائد افراد جاں بحق، ہزاروں زخمی اور کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔زلزلے کے نتیجے میں لاکھوں مکانات زمین بوس ہو گئے۔زلزلہ زیر زمین 15 کلومیٹر کی گہرائی میں آیا جس کی شدت 7 اعشاریہ 6 ریکارڈ کی گئی، زلزلہ اور اسکے بعد آنے والے نو سوسے زائد آفٹر شاکس تھے۔ صرف پینتالیس سیکنڈ کے جھٹکوں نے بڑے بڑے محلات کو زمین بوس کر کے رکھ دیا تھا۔ 2005 میں آنے والے زلزلے میں مظفرآباد کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں مکانات، اسکولز، کالجز دفاتر، ہوٹلز، اسپتال، مارکیٹیں، پلازے اور ہزاروں تعلیمی ادارے پلک جھپکنے میں ملبے کا ڈھیر بن گئے۔اس علاقے میں میں پچاس ہزار سے زیادہ افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے جب کہ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔اس زلزلہ میں زندہ بچ جانے کی اول تو امید ہی کم تھی،اور جو بچ گئے تھے اْن کا گزر بسر ناممکن نظر آرہا تھا۔کیونکہ ریاست کا بلعموم اور مظفرا ?باد کا با لخصوص انفراسٹریکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔شہدائے زلزلہ میں 18 ہزار تو صرف وہ طلبا تھے جو اسکولوں کی عمارتوں کے گرنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔مگر پاکستانی بھائیوں اور افواج پاکستان نے اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سول سوسائٹی بچوں،نوجوانوں اور عورتوں کا جذبہ قابل دیدنی تھا۔عورتوں نے اپنے زیورات بیچ کر اپنے بہن بھائیوں کی امداد اور ہمدردی کا اظہار کیا۔دیگر اسلامی ممالک اور خصوصی طور پر برادر اسلامی ملک ترکی نے متاثرین کی بحالی میں ہر ممکن امداد و تعاون کیا۔کشمیریوں کا اپنا عزم و حوصلہ بھی ایک زندہ قوم کی مانند بلند و بالا تھا۔جسکی بدولت آج الحمداللہ نہ صرف ریاست کی تعمیر و بحالی کے کام مکمل ہوئے بلکہ آج مظفرا آباد ایک جدید اور مکمل شہر بن چکا ہے۔8اکتوبر کا دن جہاں اپنے پیاروں کو یاد کرنے کا دن ہے وہاں عزم تعمیر نو بھی ہے۔جو اس امرکا آعادہ کرتاہے کہ کشمیری ایک زندہ قوم ہے جو ہر قسم کے بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
قیامت خیز ز لزلہ ، انسانی وعقل محوحترت
Oct 08, 2024