8 اکتوبر 2005کے زلزلہ کی یادیں آج بھی ذہنوں پر نقش ہیں

8 اکتوبر 2005 کی صبح تباہ کن زلزلے نے برسوں پر محیط کرب ناک کہانیوں کو جنم دیا جس میں شہر، قصبے اور دیہات سب تباہ ہو گئے خاص طور پر مظفر آباد، باغ، راولاکوٹ اور بالاکوٹ تومکمل تباہ ہوگئے۔ صبح 8 بج کر 50 منٹ پر  زلزلے نے چند لمحوں میں، خطے کا منظرنامہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔سخت سردی کی وجہ سے زندہ بچ جانے والے خوراک، پانی یا پناہ گاہیں تلاش کرتے رہے۔ عارضی خیمے اور کیمپ پھیل گئے، لیکن پھر بھی منجمد درجہ حرارت اور وسیع پیمانے پر طبی ضروریات سے نمٹنا آسان نہ تھا۔ دنیا بھر سے ایمرجنسی میڈیکل ٹیمیں زخمیوں کے علاج میں مدد کے لیے پہنچیں،ہسپتال بھر گئے ۔ ان کوششوں اور  بڑے پیمانے پر ریلیف آپریشن میںامریکہ، چین، برطانیہ، ترکی اور متحدہ عرب امارات  سرفہرست ممالک میں شامل تھے۔ 

زلزلے کے بعد، حکومت نے تین اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کی: ریسکیو آپریشنز، ریلیف کی تقسیم، اور طویل مدتی تعمیر نو۔ بعد کے سالوں میں تعمیر نو کی ایک جامع کوشش شروع کی گئی۔ بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے تعاون سے حکومت نے متاثرہ علاقوں میں گھروں، اسکولوں، اسپتالوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کا آغاز کیا۔ مظفرآباد اور باغ میں، نئی زلزلہ مزاحم عمارتیں تعمیر کی گئیں، اور مواصلات کی بحالی کے لیے سڑکیں اورپل دوبارہ بنائے گئے۔تعمیر نو کے عمل میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور کمیونٹی سہولیات کو ترجیح دی گئیں۔ ٹراما سروسز قائم کی گئیں۔2005 کا زلزلہ ملک و قوم کیلئے ایک سبق بھی چھوڑ گیا، آفات کی تیاری اور ردعمل کو بہتر بنانے کے لیے اہم اقدامات کیے گئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا قیام اسی عظیم سانحہ کا نتیجہ تھا۔ 
زلزلے کے انیس سال بعد 8 اکتوبر کی یاد آزاد کشمیر کے عوام کے ذہنوں پر نقش ہے۔اس دن کے بھیانک مناظر زندہ بچ جانیوالوںکے دلوںمیں آج بھی نمایاں  ہیں۔
وہ سکول جو زمین بوس ہو گیا
باغ کے قصبے رنگلہ میں، سب سے زیادہ تباہ کن مناظر میں سے ایک مقامی اسکول کا گرنا تھا، جہاں زلزلے کے وقت سینکڑوں بچے اپنی صبح کی کلاسوں میں جا رہے تھے۔ عمارت  ملبے کا ڈھیر ہو گئی، بہت سے طلباء  ملبے کے نیچے دب گئے۔ والدین اپنے بچوں کو بچانے کی  کوشش میں اپنے ننگے ہاتھوں ملبے میںپنجے مارتے دیکھے گئے۔ ایک باپ، محمود، جس نے اس دن اپنے اکلوتے بیٹے کو کھو دیا، ان میں شامل تھا۔ اس کے الفاظ اب بھی گونجتے ہیں: ''میں نے اُسے مدد کے لیے پکارتے ہوئے سنا، لیکن میں اُس تک نہیں پہنچ سکا۔ یہ بے بسی مجھے ہر روز پریشان کرتی ہے۔''امدادی ٹیمیں گھنٹوں بعد پہنچیں لیکن بہت  دیر ہو چکی تھی۔ غمزدہ والدین کی تصاویر، جو اپنے بچوں کی بے جان لاشیں اٹھائے ہوئے ہیں، اس سانحے کی سب سے زیادہ دردناک علامت بن گئیں۔ اسی دن باغ، مظفرآباد جیسے قصبوں میں سیکڑوں خاندان اپنے جوانوں سے بھی محروم ہو گئے۔
ماں نے بچے کیلئے اپنی جان دے دی
مظفرآباد کے نواحی گاؤں میں ایک نوجوان ماں ثمینہ نے اپنے شیر خوار بیٹے کو بچانے کے لیے اپنی قربانی دے ڈالی۔ جب زلزلہ کے دوران اس نے اپنا سوچے بغیر، خود کو اپنے بچے کے اوپر پھینک دیا، اسے گرنے والے ملبے سے بچا لیا۔ بعد میں پڑوسیوں نے بچہ ملبے تلے پایا جو معجزانہ طور پر معمولی زخمی تھا۔
زندہ بچ جانے والی زینب
تباہی کے درمیان، امید کی کہانیاں ابھریں. بالاکوٹ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں 6 سالہ زینب تقریباً تین دن سے اپنے منہدم گھر کے ملبے تلے پھنسی ہوئی تھی۔ اس کے خاندان نے امید کھو دی تھی،کہ وہ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مر گئی ہے۔ تیسرے دن، امدادی کارکنوں نے کھنڈرات کے نیچے ایک مدھم رونے کی آواز سنی۔ گھنٹوں کھدائی کے بعد، انہوں نے زینب کو باہر نکالا، زندہ لیکن کمزور۔ وہ اندھیرے میں خوراک اور پانی کے بغیر زندہ  رہی۔
 خاندان جویکدم نظروں سے
 اوجھل ہوگیا
 مظفرآباد کے نواحی گاؤں پتیکا میں سات افراد پر مشتمل ایک خاندان کا پل بھر میں صفایا ہوگیا۔جب زلزلہ آیا تو وہ ناشتے کے لیے  جمع تھے، اور پہاڑی جس پر ان کا گھر بنایا گیا تھا، راستہ دے دیا، جس سے وہ مٹی کے تودے کے نیچے دب گئے۔ ایک غمزدہ پڑوسی نے کہا، ''وہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کرنے  میں پہل کرتے تھے، اور اب وہ ایک ساتھ ہی اگلے جہاںچلے گئے ہیں۔'' 

ای پیپر دی نیشن