عصر حاضر میں شہری چیلنجز جیسا کہ جرائم کی روک تھام، ٹریفک مینجمنٹ اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبوں میں پنجاب پولیس کا سمارٹ سیف سٹی منصوبہ گیم چینجر ثابت ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی قیادت میں یہ منصوبہ صرف ایک پالیسی نہیں بلکہ ان کی شہریوں کے لیے محفوظ اور متحرک شہری ماحول کو فروغ دینے کی ذاتی وابستگی کی علامت ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس منصوبے کی دور رس افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمارٹ سیف سٹی منصوبہ میرے دل کے قریب ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ بیان شہریوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کیلئے ان کی گہری وابستگی اور فکر کو ظاہر کرتا ہے اور ان کے ''محفوظ پنجاب'' وژن کو حقیقت میں بدلنے کا حقیقی راستہ ہے۔
اس وقت سیف سٹی منصوبہ تین شہروں میں لاہور، قصور اور ننکانہ صاحب میں مکمل طور پر فعال ہے جبکہ سیالکوٹ اور شیخوپورہ میں مکمل کر لیا گیا جہاں تقریباً تمام تعمیراتی کام مکمل ہو چکا اور عنقریب باقاعدہ افتتاح کیا جائے گا۔ صوبے کے کیپیٹل شہروں جیسا کہ راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان میں سمارٹ سیف سٹی منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔، تمام شہروں میں یہ منصوبے سیف سٹی اتھارٹی ماہرین کی اپنی ماہر ٹیم، مقامی سافٹ وئیرز، وسائل اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مکمل کیے گئے ہیں۔ سیالکوٹ اور شیخوپورہ میں سمارٹ سیف سٹی منصوبوں کی جلد افتتاح شہری حفاظت اور گڈ گورننس میں نئے سنگ میل کا اضافہ کرے گی، سمارٹ سیف سٹی منصوبہ نہ صرف قانون نافذ کرنے کی صلاحیتوں کو مستحکم کرتا ہے بلکہ عوامی خدمت و حفاظت کے لیے ایک جامع فریم ورک بھی فراہم کرتا ہے، جس میں جدید نگرانی کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، چہرے کی شناخت، ٹریفک انتظام، اور ماحولیاتی نگرانی شامل ہیں۔
سیف سٹی منصوبے کی ایک اہم بنیاد اس کی مضبوط جرائم کی روک تھام کی حکمت عملی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کا وسیع نیٹ ورک قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کی آنکھیں اور کان کے طور پر کام کرتا ہے، جو شہروں کے مختلف مقامات کی مسلسل نگرانی کرتا ہے، خاص طور پر جرائم کے ہاٹ سپاٹ ایریاز میں، اس موثر حکمت عملی کے نتیجے میں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے جس سے پنجاب کے شہریوں میں تحفظ کا احساس بڑھا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اس سال جنوری سے اگست کے دوران ڈکیتی سے متعلق ایمرجنسی ہیلپ لائن 15 پر کالز میں 10% کمی آئی ہے، گاڑی چوری کی کالز میں 20% کمی آئی ہے۔ مجموعی طور پر پراپرٹیز کے خلاف رجسٹرڈ مقدمات میں 34% کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ ڈکیتی کے مقدمات میں 34% کمی آئی ہے۔ یہ شاندار اعداد و شمار اس منصوبے کے مؤثر نتائج اور پنجاب پولیس کی بہتر کارکردگی کی عکاسی کرتے ہیں، انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر عثمان انور کی قیادت میں سمارٹ سیف سٹیز کی بدولت جرائم کے اعداد و شمار میں مزید بہتری آرہی ہے۔
انٹی گریٹڈ کمانڈ کنٹرول، اور کمیونیکیشن (IC3) سینٹر سیف سٹی منصوبے کا مرکزی حصہ ہے۔ یہ مرکزی سنٹر سی سی ٹی وی کیمروں سے براہ راست ویڈیوز حاصل کرتا ہے اور واقعات کے جواب کو مربوط کرتا ہے، جس سے ٹریفک، جرائم، اور شہریوں کی حفاظت کی بر وقت نگرانی ممکن ہے۔ ٹیکنالوجی کو پولیسنگ میں شامل کر نے سے، IC3 سینٹر، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ایمرجنسی سروسز واقعات کے جواب میں تیزی سے اور مؤثر طریقے سے کارروائی کر سکیں گے۔ سیف سٹی منصوبے کی افادیت فروری 2017 میں مال روڈ لاہور پرہونے والے بم دھماکے کے بعدسی سی ٹی وی فوٹیج نے ثابت کر دی۔جب جرم کے منظر نامے کا دستاویزی ثبوت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کیلئے اہم ترین ذریعہ بن گیا ۔
سیف سٹی اتھارٹی لاہور قومی اور بین الاقوامی اجتماعات، کھیلوں کے مقابلوں اور انتہائی حساس ثقافتی و مذہبی سرگرمیوں کے دوران عوامی حفاظت کیلئے اہم منصوبے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جدید نگرانی کا نظام اور ٹیکنالوجی ذرائع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حقیقی وقت میں سرگرمیوں کی نگرانی کرنے کے قابل بناتی ہے جس سے ممکنہ خطرات کے جواب میں فوری رسپانس میں مدد ملتی ہے۔ جیسا کہ لاہور شہر آئندہ آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کے لیے تیاریاں مکمل کر رہا ہے، یہ منصوبہ کھلاڑیوں، آفیشلز، کرکٹ مداحوں، اور شرکاء کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے مضبوط سیکیورٹی حصار ثابت ہو گا۔
جرائم کی روک تھام کے ساتھ ساتھ پنجاب سیف سٹی منصوبہ ٹریفک مینجمنٹ کے مسائل میں خصوصی سہولیات کا حامل ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی ذرائع جیسے مصنوعی ذہانت (AI) اور خودکار نمبر پلیٹ کی شناخت (ANPR) کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے، سیف سٹی منصوبے نے 19 مختلف قسم کی ٹریفک خلاف ورزیوں کے خلاف AI پر مبنی ای چالان نظام نافذ کیا ہے۔ یہ نظام جولائی 2024 میں شروع ہوا، جو ذمہ دار ڈرائیونگ کو فروغ دیتا ہے اور آن لائن ای چالان کی حیثیت چیک کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ ٹریفک مینجمنٹ کا یہ جدید نظام نہ صرف سڑک کی حفاظت میں بہتری لاتا ہے بلکہ ٹریفک کے رش کو بھی کم کرتا ہے جس سے شہری زندگی کے مسائل میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔
صوبے میں ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے بھی پنجاب سیف سٹی منصوبہ اہمیت رکھتاہے۔ ہوا کے معیار کی نگرانی اور ماحولیاتی سینسرز لگا کر، آلودگی کی سطح کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔ یہ جدید ترین نقطہ نظر بروقت مداخلت کے امکانات فراہم کرتا ہے، سموگ کو ختم کرتا ہے، صحت عامہ کی حفاظت اور پبلک مقامات پرصحت مند ماحول دیتا ہے۔ رواں برس سیف سٹی اتھارٹی قربان لائن میں پہلے دورے کے موقع پر وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے اعلان کیا کہ اسمارٹ ڈسٹرکٹ سیف سٹی منصوبہ 31 دسمبر تک دیگر اضلاع میں بھی شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے خواتین کے تحفظ کے لیے ایک جدید ایپ کا افتتاح بھی کیا جو ایک بٹن کے دبانے پر 43 خدمات فراہم کرے گی۔ سیف سٹی کریم اسٹاپر ایپ کا تجرباتی استعمال دہشت گردی اور منشیات سے متعلق سنگین جرائم کا بروقت پتہ لگانے کے لیے ہے۔ ٹریفک کی خلاف ورزیوں جیسے ہیلمٹ یا سیٹ بیلٹ نہ لگانے کی روک تھام کے لیے مصنوعی ذہانتAI پر مبنی سافٹ ویئر کا تعارف بھی کیا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ سیف سٹی اتھارٹی تجاوزات کی نگرانی کے لیے کیمروں کی تعیناتی کا ارادہ رکھتی ہے جو شہری انتظام میں مزید بہتری لائے گا۔
سیف سٹی منصوبہ پنجاب کے 18 شہروں میں تیزی سے تکمیل کی جانب گامزن ہے، یہ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی محفوظ اور پائیدار کمیونٹیز کی تعمیر کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ 13 مارچ 2024 کو پنجاب سیف سٹی اتھارٹی (PSCA) اور نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (NRTC) کے درمیان دستخط کردہ توسیع کے معاہدے کے تحت بہاولپور، ملتان، گوجرانوالہ، ڈی جی خان، مظفر گڑھ، جہلم، ٹیکسلا، مری، اٹک، سرگودھا، ساہیوال، رحیم یار خان، اوکاڑہ، جھنگ، حسن ابدال، میانوالی، اور شیخو پورہ جیسے اہم شہروں میں اسمارٹ سیف سٹی منصوبوں کے نفاذ کے لیے عملی کام کا آغاز ہوا ہے۔ یہ توسیع نہ صرف محفوظ پنجاب کے خواب کی تکمیل کرتی ہے بلکہ شہری چیلنجز کے حل کے لیے ٹیکنالوجی کے جدید استعمال کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ 18 شہروں کے بعد دوسرے مرحلے میں پنجاب کے باقی شہروں میں سمارٹ سیف سٹی کا منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے گا جبکہ اس کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی زیر نگرانی صوبے کی 140 تحصیلوں میں بھی سمارٹ سیف سٹی پراجیکٹ مکمل کئے جائیں گے تاکہ چھوٹے بڑے تمام شہروں کی حفاظت اور خدمت کا عمل مزید تندہی سے پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔