وکلا آئین کے رکھوالے، ترامیم پیکج غیرآئینی، اسلام آباد میں کنونشن 

اسلام آباد(وقائع نگار)اسلام آباد بار کونسل کے زیر اہتمام کنونشن سے خطاب میں  وکلانے کہا کہ ہم آئین کے رکھوالے ہیں ، آئین سے کھلواڑ کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے ، ہم سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے ، یہ آئینی پیکج غیر جمہوری قوتوں کا بنایا ہوا ہے ، وہ چاہتے ہیں سپریم کورٹ کو کنٹرول کیا جائے ، آل وکلاء کنونشن میں قرارداد منظور کر لی گئی ہے جس میں جوڈیشل پیکج کو مسترد کیا گیا ہے ۔ آل وکلاء کنونشن میں مختلف بار کونسلز کے وکلانے شرکت کی ۔ ذوالفقار عباسی ایڈووکیٹ نے  کہا کہ وکیلوں پر درج مقدمات قائم کرنے کی مذمت کرتا ہوں ، یہ کنونشن کسی پولیٹیکل پارٹی کی طرف جھکاؤ نہیں ہے ، یہ کسی پولیٹیکل پارٹی کا فنکشن نہیں ہے ،  ہم نہیں کہتے قانون سازی نہ کریں قانون سازی ضرور کریں لیکن ترامیم بدنیتی کی بنیاد پر نہ ہو ۔ سیکرٹری مری بار ایسوسی ایشن محمد فیاض عباسی ایڈووکیٹ نے کہا کہ فیڈرل کانسٹیٹیوشنل کورٹ جو بنائی جا رہی ہے وہ آرٹیکل 175 میں ترمیم کر کے بنائی جا رہی ہے، یہ جوڈیشل انٹرفیئرنس جو کہ پارلیمنٹ کر رہی ہے جوڈیشل معاملات میں انٹرفیرنس کیا یہ نہیں ہے؟ ترامیم کے بعد اگر ایک جج اگر مرضی سے فیصلے نہیں کرتا تو اس کو اٹھا کے صوبہ بدر کر دیا جائے گا، ایڈیشنل سیکرٹری سپریم کورٹ بار  شہباز کھوسہ  نے کہا کہ پاکستان کی 25 کروڑ عوام کی رائٹس پر شب خون مارا جا رہا ہے، سیاست دان اور یہ کالا کوٹ جو ہے یہ ان کے فنڈامینٹل رائٹس ہیں، آپ کا صرف ایک کام ہے کہ عوام کی مفاد میں عوام کی مفاد کے لئے آپ لیجسلیشن کریں۔ بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان میں کبھی  متوازی عدلیہ قائم نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت آئین کے اندر سے متوازی عدلیہ لائی جا رہی ہے اس کو وکلاء قبول نہیں کریں گے۔ تاریخ دور نہیں جب تاریخ کے بعد تاریخ بدلنے والی ہے۔ شکیل عباسی نے کہا کہ آئینی عدالت کے بجائے ایک کانسیٹیوشن بنچ سپریم کورٹ میں قائم کی جائے۔ ججز کی روٹیشن ہونی چاہئے ججز کی عمر 68  سال نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کی عمارت کی منتقلی میں وکلاء دربدر ہوئے، میں مطالبہ کرتا ہوں کہ ہمارا وکلاء کمپلیکس کا روکا ہوا کام دوبارہ شروع کیا جائے تاکہ دوسرے ڈسٹرکٹ کے وکلاء یہاں وکالت کر سکیں۔ ریاست علی آزاد نے  کہا کہ آج اس کنونشن سے حکومت کو پیغام ہے کہ اسلام آباد محصور ہونے کے باوجود آج ملک بھر کے وکلاء یہاں موجود ہیں، آج ملک کی تینوں بارز کے لوگ یہاں موجود ہیں، بار عدلیہ کی دیواریں ہیں انہیں کمزرو نہ کریں، آپ اس آئینی ترمیم سے آرٹیکل 183 184 190 199  ختم کرنے جا رہے ہیں، یہ آئینی نہیں سیاسی عدالت بنانے جا رہے ہیں۔ چیئرمین اسلام آبار بار کونسل راجہ علیم عباسی نے کہا کہ ہم نے یہاں3000  کرسیاں لگائی تھیں دیکھ لیں لوگ کھڑے ہیں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ ہمارا حکومت سے کوئی اختلاف نہیں صرف آئینی پیکج سے اختلاف ہے۔ ممبر پنجاب بار کونسل حافظ محمد عقیل نے کہا کہ آج ہم حکمرانوں کے شہر میں گروپوں کی سیاست اور سیاسی وابستگیوں کو پیچھے چھوڑا، آئین کے تحفظ کے لیے یہاں جمع ہیں، وکلاء کا یہاں ہونا ہمارے متحد ہونے کی علامت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار، اسلام آباد بار کونسل کی جانب سے قراردار منظور کی گئی ہے۔ قرارداد کے مطابق آئینی عدالت کے قیام کو بھی مکمل مسترد کرتے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ بدترین فنڈامنٹل ترامیم ہے۔ فیڈرل کانسیٹیوشن کورٹ کا قیام اور آئینی ترامیم واپس لی جائیں۔ حامد خان نے  کہا کہ اس کنونشن کے منتظمین سمیت یہاں موجود تمام بار کونسلز کے صدور اور نمائندوں کا شکر گزار ہوں۔ میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار اور ڈسٹرکٹ بار کو اس ملک گیر کنونشن کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہوں، یہ آج تک کئے گئے تین بڑے کنونشنز میں سب سے اہم کنونشن ہے۔ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ وکلاء منقسم ہیں میں کہتا ہو وکلاء آئین کی بالادستی کے لیے متحد ہیں۔ اس ملک میں77  سال سے پولیٹیکل انجنئیرنگ ہو رہی ہے، ملک کی تعمیر میں کسی جرنیل کا کردار نہیں، بانی پاکستان قائد اعظم اور ان کے رفقاء وکیل تھے، وکلاء کی نعشیں بھی گریں تو بھی ہم یہ ترمیم نہیں لانے دیں گے۔

ای پیپر دی نیشن