پاکستان اور آزاد کشمیر کے آئینی انتظامی اور مالی تعلقات

آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو آزاد جموں و کشمیر کے خطہ سے ٹی وی لائسنس فیس یا کوئی دوسری آمدن وصول کرنے سے روک دیا ہے کیوں کہ پیمرا کو آزاد جموں و کشمیر مےں (آپریٹ) کارروائی کرنے کا کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں ہے یہ حکم آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جج ایم تبسم آفتاب علوی نے کیبل اپریٹر ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کردہ پٹیشن پر دیا ہے، پٹیشن مےں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974ءکے تحت آزاد جموں و کشمیر کونسل کو یہ اختیار نہیں کہ وہ پاکستان کے کسی محکمہ کاآزاد جموں و کشمیر کے خطہ مےں کوئی کام یا اختیار استعمال کر سکے اس سلسلہ مےں الجبیر ہوٹل میرپور بنام کونسل اور نفیس بیکری میرپور بنام کونسل کے مقدمات مےں سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے دیئے گئے فیصلوں کو بطور مثال بھی پیش کیا گیا ہے‘ اس حکم امتناہی نے آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے مابین آئینی اور انتظامی تعلقات کے اہم اور حساس ایشو کو پھر سامنے لاکھڑا کیا ہے، آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے درمیان آئینی، انتظامی، دفاعی، معاشی اور سیاسی تعلقات مختلف مراحل سے گزر کر پہلی بار 1970ءایکٹ کے تحت صدارتی نظام مےں متعین کئے گئے تھے‘ اسے آزاد جموں و کشمیر اسمبلی نے منظور کیا تھا اس ایکٹ کے تحت آزاد جموں و کشمیر حکومت کو سکیورٹی، خارجہ پالیسی اور بعض اہم عالمی امور کے سوا تمام دیگر امور مےں اندرونی خودمختاری حاصل تھی۔
آزاد کشمیر مےں ذوالفقار علی بھٹو کے دور مےں پارلیمانی نظام رائج کیا گیا تو عبوری آئین ایکٹ 1974ءکے تحت آزاد جموں و کشمیر کونسل قائم کی گئی جسکے چیئرمین کے منصب پر پاکستان کے وزیراعظم سرفراز کیے گئے آزاد کشمیر اسمبلی سے اور پاکستان کی قومی اسمبلی سے چھ چھ ممبران اسکے ممبران نامزد منتخب کیے جاتے ہےں اس نئے ایکٹ اور نظام کے تحت اہم اختیارات کونسل اور اسکے چیئرمین کو تفویض کر دیئے گئے آزاد جموں و کشمیر حکومت کے اہم امور مےں اختیارات کم کر دیئے گئے تھے آزاد جموں و کشمیر سے یہ آوازیں اٹھتی ہےں کہ یہاں کی حکومت کو جو باقاعدہ مقابلے کے انتخابات مےں منتخب ہوتی ہے۔ ایکٹ 1970ءکے اختیارات لوٹا دیئے جائیں‘ یہ آوازیں سیاسی میڈیا، دانشور، قانونی ماہرین اور سنجیدہ عوامی حلقوں مےں زیر بحث ہےں، ظاہر ہے ان حلقوں مےں ان آوازوں کو حمایت ملتی ہے آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے جسٹس تبسم آفتاب علوی کے پیمرا کےخلاف اس حکم امتناعی نے اس ایشو کو ابھار دیا ہے چنانچہ اس سال جون مےں آزاد جموں و کشمیر کے ایک نجی ادارہ اور مرکز برائے ”امن‘ ترقی اور اصلاحات“ Center for peace Development and reforms (CPDP) نے اسلام آباد مےں ایک گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا تھا اس ادارہ کے چیئرمین طارق مسعود ہےں جو آزاد جموں و کشمیر حکومت کے ذہین متحرک اور غیر معمولی انتظامی صلاحیتوں کے مالک سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہےں انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کے نامور ریٹائرڈ ججز چیدہ چیدہ سیاست دانوں اور حاضر سروس بیوروکریٹس کو اس گول میز کانفرنس مےں مدعو کیا اور مندرجہ ذیل امور پر غور کرنے کے بعد سفارشات مرتب کی تھیں (1) آزاد جموں و کشمیر حکومت کی نظریاتی و تصوراتی نوعیت (2) حکومت پاکستان کا کردار (3) 1947-70ءکی آئینی حیثیت (4) 1970ءکا آئین (5) 1974ءکا آئین (6) آزاد جموں و کشمیر کونسل کی تشکیل (7) آزاد جموں و کشمیر کونسل کے تشکیلی نقائص (8) آزاد جموں و کشمیر کونسل کا ٹریک ریکارڈ (9) گول میز کانفرنس کی سفارشات ۔
(1) آزاد جموں و کشمیر حکومت کو جمہوری، موثر اور جوابدہ بنانے کےلئے آزاد جموں وکشمیر ایکٹ مےں ترامیم کی جائیں جو عوام کی توقعات کے مطابق ہوں۔
(2) آزاد جموں و کشمیر کونسل حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان ان امور مےں باہمی رابطہ کا کردار ادا کرےگی جن کا ذکر آزاد کشمیر ایکٹ 1974ءکی شق 30,31مےں کیا گیا ہے ان مےں اقوام متحدہ کے کمشن برائے انڈیا و پاکستان کی قراردادوں مےں دی گئی ذمہ داریاں، دفاع، سکیورٹی، کرنسی خارجہ امور اور بیرونی تجارت شامل ہیں۔
(3)آئین مےں 18ویں اور 19ترامیم کے تحت جوڈیشل کمشن قائم کیا گیا ہے اسی طرح کا جوڈیشل کمشن آزاد کشمیر مےں بھی قائم کیا جائے۔ الیکشن کمشن، شفاف اور غیر جانبدار الیکشن کو یقینی بنانے کےلئے ایک آزاد الیکشن کمشن تشکیل دیا جانا چاہئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کی جائے کمیٹی مےں حکومت اور اپوزیشن کے ممبران ہوں۔
(4) منسلکہ معاملات۔ سب سے اہم ایشوز مےں سے پاکستان مےں آزاد جموں و کشمیر کے مہاجرین کی نمائندگی کا ہے موجودہ سسٹم جس کے تحت آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کے مہاجر ممبران اسمبلی کے انتخاب کےلئے سارے پاکستان مےں انتخابات کرائے جاتے ہےں مشکل اور اخراجات کا متحمل ہے انتخابی حلقے بڑے پھیلے ہوئے اور غیر حقیقی ہےں انتخابات مےں خفیہ طریقے استعمال کیے جاتے ہےں غیر ریاستی باشندے بھی انتخابی فہرستوں مےں اپنا نام درج کرا لیتے ہےں پاکستان کے صوبوں کی انتظامیہ پر آزاد جموں و کشمیر الیکشن کمشن کا کنٹرول نہیں ہوتا اس لئے وہ صاف اور غیر جانبدار الیکشن کو یقینی نہیں بنا سکتا اس سسٹم کو زیر غور لایا جائے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبران کے ذریعہ انتخاب کرا کر نمائندگی دی جائے یہ طریقہ کار پاکستان کے آئین کی شق 15کےمطابق ہوگا جس مےں سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے اپنے امیدواران کی فہرست پیش کر دیتی ہےں) امیدوار کے پاس ریاستی باشندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ ہونا ضروری ہے سارے پاکستان مےں انتخابی فہرستوں کی تیاری بند کر دی جائے، عوامی بحث اس موضوع پر جاری رہے تاکہ موجودہ سسٹم کی جگہ نیا سسٹم لانے کےلئے ایک وسیع رائے پیدا ہو سکے۔
کابینہ کا حجم۔ آزاد جموں و کشمیر آئین مےں شق ہونی چاہئے جس کے تحت وزراءکی تعداد ممبران اسمبلی کی تعداد کے فیصد تناسب سے زیادہ نہ ہو دو سے زیادہ مشیران وزیر کے رتبہ کے مقرر نہ کیے جائیں، صدر اور وزیراعظم کے اختیارات صدر کےلئے ضروری ہوگا کہ وہ وزیراعظم کابینہ کی ایڈوائس پر پندرہ دن کے اندر عمل کریں ایسا نہ کرنے پر ایڈوائس کو قبول کیا یا تسلیم کیا جائےگا۔ صدر ایسی ایڈوائس وزیراعظم کابینہ کو نظرثانی کےلئے بھیج سکتے ہےں تاہم جب یہ ایڈوائس صدر کی خدمت مےں کسی تبدیلی یا تبدیلی کے بغیر دوبارہ بھیجی جائےگی تو اس پر مندرجہ بالا پیرا مےں دی گئی شق لاگو ہوگی۔
ڈیپوٹیشن پالیسی، آفیسران جو حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد جموں و کشمیر مےں پوسٹ کیے جاتے ہےں وہ باہمی رضا مندی کے تحت (ڈیپوٹیشن) پر بھیجے جائیں جیسا کہ دونوں حکومتوں کی ڈیپوٹیشن پالیسی مےں طے کیا گیا ہے ڈیپوٹیشن پر بھیجے جانےوالے آفیسر مستعار لینے والی حکومت کے عام قواعد سروس کے پابند ہونگے، بیرونی سرمایہ کاری، مالی امور اور امداد کا معاملہ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کی رواں احاطہ اختیار مےں لایا جائے دونوں حکومتیں مل کر قومی وسائل اور ذرائع کو تلاش کریں اور آزاد جموں و کشمیر کی سماجی اقتصادی ترقی کےلئے بروئے کار لائیں۔

ای پیپر دی نیشن