حال ہی میں جنرل فیض علی چشتی نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ایک دو ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا احوال تو انہوں نے مجھے نہیں بتایا لیکن اسلام آباد کے حلقے ان کی اس ملاقات کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یہ ٹھیک ہے کہ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے میں شامل تھا اس وقت مارشل لاءلگنا ضروری تھا لیکن میں جنرل ضیاءالحق کو صرف تین ماہ کےلئے مارشل لاءلگانے کےلئے کہا تھا لیکن انہوں نے طویل عرصے کےلئے مارشل لاءلگا دیا تو میرے ان سے اختلافات ہو گئے اور میں ان کی حکومت سے الگ ہو گیا۔ دریں اثناءوزیراعظم کا یہ دعویٰ محلِ نظر ہے کہ فوج 2008ءسے حکومت، یعنی ان کی حکومت کے ساتھ ہے اور وہ جمہوریت کو پسند کرتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور پر وہ کیا تبصرہ کریں گے کہ فوج کس کے ساتھ تھی؟ وہ بھول رہے ہیں کہ افواج پاکستان ایک مضبوط مستحکم ڈسپلن کے تحت کام کرتی ہے۔ وہ اپنی اعلیٰ قیادت کے خلاف ازخود کبھی اور کوئی کارروائی نہیں کر سکتیں۔ موجودہ فوجی سربراہ جنرل کیانی نے آئین و قانون کے مطابق افواج پاکستان کو سیاست سے مکمل طور پر علیحدہ کر رکھا ہے لہٰذا فوج کی جانب سے جمہوریت کو پسند یا ناپسند کرنے کا معاملہ خلط مبحث ہے وزیراعظم گیلانی کی یہ بات آدھی سچائی ہے کہ حکومت اور عوام دہشت گردی ختم کرنے کےلئے پرعزم ہیں۔ عوام تو بلاشبہ ملکی و غیرملکی دہشت گردی سے مکمل چھٹکارا چاہتے ہیں لیکن حکومت امریکی مرضی و منشاءکے برعکس کسی دہشت گردی کے خاتمے میں پرعزم دکھائی نہیں دیتی۔ کراچی میں چھ ماہ کے دوران بارہ سو کے قریب بے گناہ انسان دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ جائیں تب بھی صوبائی وزیراعلیٰ فوج کو بلانے سے گریز کریں اور وزیراعظم اسے صوبائی معاملہ قرار دیں تو یہ انتہائی بے حسی اور سنگ دلی کا مظاہرہ ہے اسے اگر ”انتہا پسندی“ سے تعبیر نہ کیا جائے تو پھر کیا نام دیا جائے؟ کیا یہ ناسور نہیں جسے ختم کرنے میں حکومت فوج سے مدد حاصل کرے؟ فوج سوات میں تین ماہ کے اندر دہشت گردی ختم کر کے حکومتی عمل داری قائم کر سکتی ہے تو کراچی میں برسوں سے جاری دہشت گردی ختم کرانے کےلئے اسے طلب کرنے میں کیا امر مانع ہے؟کراچی میں قیام امن کے حوالے سے مرحوم وفاقی وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نصیراللہ بابر کی کامیابیوں کو موجودہ وزیر داخلہ بھی برآمد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو پھر یہ خام خیالی کراچی کو کبھی سکھ کا سانس نہیں لینے دے گی اور حالات بد سے بدتر ہی ہوتے چلے جائیں گے۔ جنرل بابر نے اگر کراچی میں کامیاب آپریشن کیا تھا تو اس میں ان کے وژن اور اخلاص کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اسی کے باعث انہوں نے اپنے ایسے دست و بازو اکٹھے کئے تھے جو کراچی میں امن قائم کرنے کے حقیقت میں متمنی تھے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سویلین قانون نافذ کرنے والے ادارے پست ترین مورال کے باعث اپنی اثرپذیری کھو چکے ہیں۔ ان میں شامل کالی بھیڑوں کے بھتہ خوروں سے قریبی روابط ہیں اور اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنے لئے معیوب نہیں سمجھتے وگرنہ کسی کی کیا مجال کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی جرا¿ت کرے۔ مجھ سمیت پاکستان کی عوام کی نظریں جنرل کیانی صاحب کی طرف ہیں کیونکہ اب ہمیں صرف آرمی سے ہی توقع ہے کہ یہ میدان میں آگے ان مکروہ چہرے والوں کو بے نقاب کریں جنہیں پیسہ اور اسلحہ پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے مل رہا ہے اور کراچی میں فوجی آپریشن کے ذریعے ان لوگوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے جو وطن عزیز میں امن اور سکون کے دشمن ہیں۔