شام کی تاریخی حیثیت اورامریکا کا ممکنہ حملہ

Sep 08, 2013

سرورمنیر راﺅ

شام کی صورت حال ان دنوں میڈیا اور عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والے افراد کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔عرصے سے جاری شدید خانہ جنگی کی بناء پر بشار الاسد کی حکومت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ امریکا کے علاوہ فرانس ،ترکی اور کینیڈا بھی شام پر حملے کے حامی ہیں۔جبکہ یورپی برادری اورپوپ نے ممکنہ امریکی حملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ میں جی 20ملکوں کے سربراہ اجلاس کے پہلے دو دنوں کے اختتام پر عالمی طاقتیں شام کے خلاف فوجی کارروائی پر تاحال متفق نہیں ہو سکیں ۔جبکہ پہلے ہی امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی شام پر امریکہ کی فوجی کارروائی کی 07کے مقابلے میں10ووٹوں سے منظوری دے چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے عالمی رہنمائوں کو خبردار کیا ہے کہ "مکمل سوچ وبچار کے بغیر"شام کے خلاف فوجی کارروائی سے فرقہ وارانہ خانہ جنگی میںکمی کی بجائے اضافہ ہو گا جو کسی بھی طرح شام اور عالمی امن کے لیے سودمند نہیں ۔
شام ملت اسلامیہ کا ایک اہم ملک ہے۔شام کی تاریخ در حقیقت آرٹ، ثقافت اور انسانی تعلقات کی دریافت کا سفر ہے۔بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع شام کی سرزمین کے ہر قدم پر ایک تاریخ موجود ہے۔ اسے دنیا کی مختلف تہذیبوں کے ملاپ کی سر زمین ا ور مشرق و مغرب کے درمیان ایک پل کی حیثیت بھی حاصل ہے ۔ ہزار ہا سال سے بحر اوقیانوس اور د ریائے فرات کے درمیان کا یہ علاقہ تاریخی تبدیلیوں کا مرکز رہا ہے۔شا م میں چھ ہزار سال پرانی تاریخ کے آثاراب بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین عمارات اور مذاہب کے آثار بھی ملتے ہیں۔شام کو عربی اور انگریزی زبان میں"شام" نہیں کہا جاتا۔ عربی زبان میں اس ملک کا  نامـ" سوریا" اور انگریزی میں "سیریا" کہتے ہیں۔شام کے صحرا، وادیاں، ساحل، عبادت گاہیں، نوادر اور محلات سب اپنے اندر صدیوں پرانی تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔عیسائیت کی بنیاد اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا آغاز بھی شام ہی سے ہوا۔ دمشق کو طویل عرصے تک اسلامی دارلسلطنت کی حیثیت حاصل رہی۔ سپین اور ایشائے کوچک تک اسلام کا ابدی پیغام بھی شام ہی سے پہنچا۔
دمشق کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے، کہ یہ دنیا کا ایسا شہر ہے جو کبھی تباہ و برباد نہیںہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ د مشق شہر کی گلیوں میں پھرتے ہوئے جدید اور قدیم کا ایسا امتزاج نظر آتا ہے جو شایدہی دنیا میں کہیں دیکھا جا سکے۔ الف لیلوی داستانوں کے اس شہر کے قہوہ خانے اب بھی آباد ہیں۔یہاں چند لمحے بیٹھ کر عریبین نائٹس کا احساس ہوتا ہے۔یونانی اور رومن دور میں یہ شہر تہذیب و تمدن کا مرکز رہا۔
شام کی بیاسی فی صد آبادی مسلمان ہے۔ تیرہ فی صد عیسائی جبکہ بقایا پانچ فی صد آبادی میں دوسرے مذاہب کے افراد شامل ہیں۔فرانسیسی اور مغربی حکمرانی کے اثرات شام کی معاشرتی زندگی میں بڑے نمایاں ہیں۔آزاد خیالی اور جدید پہناوا عام ہے۔ دمشق کا بازار حمیدیہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔اس کورڈ بازار کا آغاز سلطان صلاح الدین ایوبی سکوائر سے ہوتا ہے اس سکوائر میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے مجسمے کو ایک تیز رفتار گھوڑے پر سوار دکھایا گیا ہے۔سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ میں تلوار ہے اور وہ فاتحانہ انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ سیاحوں کی بڑی تعداد اس مجسمے کے ساتھ تصویریں بنواتی ہے ۔
حمیدیہ بازار مسجد اموی کے صدر دروازے پر ختم ہوتا ہے۔تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام اور دوسرے شہد ائے کربلا کے سر مبارک طشتریوں میں رکھ کر اسی بازار حمیدیہ سے جلوس کی شکل میں مسجد اموی تک لائے گئے جہاں یزید کا دربار لگا۔ اس بازار سے گزرتے ہوئے تاریخی تصورات انسان کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ مسجد اموی میں وہ جگہ جہاںحضرت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک رکھا گیا تھا اب وہ "راس حسین" کے نام سے منسوب ہے۔ہر روز سینکڑوں زائرین اموی مسجد میںمقام "راس حسین" کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔
مسجد اموی دمشق کی سب سے قدیم عبادت گاہ ہے۔ تین ہزار سال پہلے آرمینین د ور میں یہاں"Temple of Madad , The God of Thunder  بنایا گیا، اس کے بعد رومن دور میں یہاںJupitor" "Temple of بنا ۔ عیسائیت کے دور عروج میں Temple کے میدانی حصے میں ایک چرچ بنایا گیا ۔ 635عیسوی میں جب اسلامی دور آیا تو مسلمانوں نے اس مشرقی حصے میں مسجد تعمیر کی۔ ستر سال تک مسلمان اور عیسائی مسلسل ایک ساتھ اپنے اپنے حصوں میں عبادت کرتے رہے۔اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت دمشق میں چار بڑے گرجا گھروں کے عوض اموی مسجد کے احاطے میں قائم چرچ کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ اس معاہدے پر عمل در آمد کے بعد یہاں مسجد اموی کی تعمیر شروع ہوئی۔ دس سال کے عرصے میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ یہ مسجد سلطنت اسلامیہ کی پہلی یادگار تعمیر بھی ہے۔بیت المقدس کے بعد مسجد اموی ہی ایک ایسی جگہ ہے جو یہودی، عیسائی اور مسلمان تینوں مذاہب کے پیروکاروں کیلئے مساوی طور پر متبرک حیثیت کی حامل ہے۔اموی مسجد مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے اس لحاظ سے بھی خصوصی طور پر متبرک ہے کہ یہاں پیغمبر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا روضہ مبارک ہے جنہیں عیسائی "John the Baptist"کہتے ہیں ۔ 
شام میں بد امنی کی صورتحال سے جہاں وہاں کے عوام پریشان ہیں وہاں اس تاریخی ملک میں ملت اسلامیہ کے اہم مقامات اور تاریخی آثاروں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ بشار الاسدکے حامی اور مخالفین اپنے اپنے مقاصدحاصل کرنے کی خاطر ملت اسلامیہ کی ان درخشاں نشانیوں کی بے حرمتی سے دریغ بھی نہیں کر رہے۔ 

مزیدخبریں