جنگ ستمبر کی کچھ یادوں کا گلدستہ

ستمبر کا مہینہ جب بھی آتا ہے ہم بے ساختہ ستمبر 1965ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی سترہ روزہ جنگ کی یادوں میں کھو جانتے ہیں یہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔ ہم نے نئے پاکستان فارسٹ کالج سے ٹریننگ لے کر محکمہ جنگلات میں داخل ہوئے تھے۔ اور مشہور زمانہ چھانگا مانگا جگل ہمارے چارج میں تھا۔ 1965ء کے اس سال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع پر سخت کشیدگی اور تنائو پایا جاتا تھا۔ رن کچھ کے محاذ پر بھی ایک خونریز جھڑپ ہوچکی تھی۔ جس میں پاکستان کی فوج نے بھارتی فوج کو بری طرح مار بھگا کر ایک بڑی ہزیمت سے دو چار کیا تھا۔ تو اس پر بھارت کے اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے پاکستان کو تڑی لگائی تھی کہ اس کا بدلہ لینے کیلئے ہم اپنی مرضی کے محاذ کا انتخاب کریں گے تو پاکستان کی افواج سرحدوں پر پہنچ گئی تو اس سلسلہ میں کچھ ٹروپس چھانگا مانگا جنگل میں بھی خیمہ زن ہوگئے کہ ضرورت پڑنے پر وہ فوری طور پر محاذ پر پہنچ سکیں اور یوں اس حالتِ تیاری میں وہ پورا اگست کا مہینہ وہیں مقیم رہے۔ تو ہمارا ان سے سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سطحوں پر مکمل رابطہ رہا۔ فرصت کے لمحوں میں وہ فوجی افسر ہمارے ریسٹ ہائوسسز میں آجایا کرتے۔ یا کبھی ہم ان کے کیمپوں میں چلے جاتے۔ خوب گپ شپ رہتی۔ انہی دنوں ہماری ملاقات قوم کے بہادر فرزند راجہ عزیز بھٹی سے بھی ہوئی۔ وہ چھانگا مانگا جنگل کے باہر قریب ہی کسی مقام پر خیمہ زن تھے۔ ایک روز وہ اپنے رفقائے کار سے ملنے چھانگا مانا آئے تو اتفاق سے ہم بھی وہا ریسٹ ہائوس میں موجود تھے۔ یہاں ان سے ایک یادگار ملاقات ہوئی۔ وہ بہت کم بولے، لیکن جتنا بھی بولے خوبصورت انداز میں خوبصورت گفتگو کی۔ یہاں ان کی پرکشش آنکھوں کا سحر بھی ہمیں مسحور کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اسی طرح کھیم کرن کے محاذ کے شہید بریگیڈئر شامی سے بھی ہماری ملاقات چھانگا مانگا میں ایک خوشگورا ماحول میں ہوئی تو اس ملاقات کے یادگار لمحات بھی ہماری یادوں میں محفوظ ہیں۔ اور وہ اس طرح چھانگا مانگا کی جھیل میں پاک فوج کے انجینئر وں نے ایک ایسا فلوٹ تیار کیا جو تیرنے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ غیر محسوس انداز میں اپنی سمت بھی تبدیل کرتا رہتا تھا۔ ایک رات اس فلوٹ پر تمام افسران کی گیٹ ٹو گیدر کے طور پر کھانے کی دعوت دی گئی تو ہم بھی اس میں شامل ہوئے بریگیڈیر شامی اس دعوت کے مہان خصوصی تھے۔اور پھر یہ 12 ستمبر کا واقعہ ہے جسے ہم کبھی نہیں بھول پائیں گے کہ جب یہ جنگ پورے زوروں پر تھی۔ ہم امیر احمد خان اس وقت کے سیکرٹری زراعت مغربی پاکستان کے بلاوے پر چھانگا مانگا سے لاہور انہیں ملنے گئے۔ ان سے ملاقات کے بعد ان کے پی ،اے کے کمرے میں گئے تو دیکھا وہ اپنے ٹائپ راٹر پر ایک تعزیتی خط ٹائپ کر رہے تھے جو ایک فوجی افسر کی جنگ میں شہادت پر سیکرٹری کی طرف سے شہید کے والد کو لکھا گیا تھا۔ خط پر نظر پڑی تو یہ جان کر ہم سکتے میں آگئے کہ یہ شہید ہمارا بچپن کا دوست کیپٹن حمید سنبل تھا جو سیالکوٹ میں جسٹر کے محاذ پر دشمن کے علاقے میں نہایت دلیری سے اوپی کے فرائض انجام دیتے ہوئے شہادت سے سرفراز ہوا۔ ان دنوں وہ اپنی شادی کی تیاریوں میں تھے ایک دفعہ ہمیں ان کا پیغام ملا کہ فلاں تاریخ کو انہوں نے لاہور میں اپنا ویڈنگ ڈریس جو انہوں نے کسی ٹیلر کو دے رکھا لینے آنا ہے لیکن اس سے پہلے جنگ چھڑ گئی اور وہ لاہور نہ آسکے۔

ای پیپر دی نیشن