آج ہم اس بات کا ادراک کرتے ہیں کہ سیاسی، کلچرل اور فکری تصورات میں انقلاب لائے بغیر سماجی ڈھانچے کو مضبوط پیمانے پر استوار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ہم نے جو سیاسی نظام مرتب کیا ہے۔ اگر وہ ’’عوام دوست‘‘ نہیں ہے۔ تب تک ہم مطلوبہ نتائج اخذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ سب سے ضروری امر تو یہ ہے کہ ہمیں اس نظریہ اور حقیقی اسلام کی ضرورت ہے جو بہترین سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصول وضع کرتا ہے لیکن ہم نے حقیقی اسلام کو محض اس لئے ترک کر دیا ہے کہ حقیقی اسلام جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضرب لگاتا ہے اور اس بنیاد پر کھڑا ہونے والا قانونی، سیاسی، سماجی اور فکری ڈھانچہ ذہنی انتشار کو ہوا دیتا ہے۔ جب کوئی حکومت مذہب کے سیاسی استعمال، سائنسی اور جمہوری عمل کو دبانے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا نتیجہ کشمکش، بدترین سماجی اور اقتصادی ناہمواری کی صورت میں نکلتا ہے۔ یورپ، روس، چین اور لاطنی امریکہ کے ملکوں کی تازہ ترین تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اگر معاشرے میں بنیادی اور ہمہ گیر تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں تو ان میں تشدد، احتجاج اور انقلاب پسندی کی راہ پھوٹ پڑتی ہے۔ پاکستان اس وقت بدترین سماجی، معاشرتی اور اقتصادی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس کا حل تو یہی ہے کہ سماجی ڈھانچہ کو بدلا جائے قلیل بالائی طبقہ نچلے طبقوں کو پسماندگی کے دوزخ میں مدت دراز تک دبا کر نہیں رکھ سکتا۔ قرآنی تصور حقیقتاً اس سماجی انقلاب کی طرف توجہ دلاتا ہے جس کے تحت سیاسی، سماجی، اقتصادی، دینی، روحانی اور فکری احوال سے ایک خاطر خواہ تبدیلی لائی جا سکے۔ قرآن مجید کی 90 مکی سورتیں اور 24 مدنی سورتیں ہیں جو فطری اور سماجی انقلاب کی صداقتوں کا نمونہ ہیں۔ آنحضورؐ نے جس نئی تحریک کی بنیاد رکھی اس میں زوال پذیر سماجی نظام کو الٹ کر رکھ دیا گیا۔ مراعات اور امتیازات کو چیلنج کر دیا گیا۔ اس طرح کے وضع کردہ سیاسی نظام میں نہ تو عدم مساوات کا پہلو رکھا گیا اور نہ ہی ناانصافیوں اور ناہمواریوں کو جگہ مل سکی جب معاشرہ ان وضع کردہ اصولوں پر چل نکلتا ہے تو نہ تو تشدد کو پنپنے کا موقع ملتا ہے اور نہ ہی خونی انقلاب اپنے لئے جگہ بنا پاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہماری ساری توجہ سیاسی نظام پر مرکوز ہے اور ہم یہ بھول چکے ہیں کہ اگر لوگوں کی عزت نفس محفوظ نہ ہو لوگوں کے لئے عوام دوست قوانین نہ ہوں، انصاف کی فراہمی نہ ہو تو بہترین سیاسی نظام بھی لوگوں کو empower نہیں کر سکتا اور لوگوں کو طاقتور اور بااختیار بنانے کے لئے جمہوریت کے ساتھ ساتھ قانون کی حکمرانی بھی لازمی شرط اور جب تک قانون کی حکمرانی نہ ہو آزاد اور فعال عدلیہ نہ ہو جمہوری نظام وہ نتائج نہیں لا سکتا جس سے معاشرہ مستحکم اور عوام بااختیار ہوں۔ عدلیہ کا کردار ایسے ممالک میں دیگر تمام اداروں سے اہم ہو جاتا ہے جہاں سیاسی روایات کمزور اور انتظامی ادارے عدم استحکام کا شکار ہوں۔ ایسی صورت میں عدلیہ انتظامیہ اور سیاستدانوں کی رہنمائی کر سکتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ ہمیشہ روبہ زوال رہے ہیں تاہم موجودہ صورتحال کچھ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ نہ تو سیاسی نظام اتنا مربوط ہے کہ سیاسی انتشار سے بچا جا سکے اور نہ ہی جمہوری نظام وہ نتائج مرتب کر سکا ہے کہ اس کے ثمرات غریب تک پہنچ سکیں۔ آج ہم اس مقام پر کھڑے ہیں کہ اگر ہم نے قومی امور کے بارے میں اپنی سوچ نہ بدلی تو معاملات ناقابل اصلاح ہو جائیں گے۔ جن معاشروں میں اداروں کی کوئی قدر ہے وہاں جمہوریت ایک مستحکم معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے لیکن جب یہ اصول عام ہو جائے کہ ملکی اداروں اور قوانین کو اس انداز میں ملیامیٹ کیا جائے کہ ہم جلد از جلد درست راستہ پر چل نکلیں گے تو ہمارا ترقی کا سفر رک جاتا ہے اور جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ کسی شارٹ کٹ یا بہتری کی امید میں آئین و قوانین کو پامال کرتے ہوئے عرصہ ہواہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ چند افراد پر بھروسہ کرنے کی بجائے جمہوری اداروں کو فعال بنایا جائے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ وہ فسطائی حکومتیں جو عدلیہ اور جمہوری اداروں کو فعال بنانے کی بجائے اپنے اردگرد ایسے افراد کو جمع کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جو صاحب اقتدار کے ذات و نظریات کے ساتھ مخلص ہوں تو اس سوچ کے نتیجے میں ادارے اپنی آزادانہ حیثیت کھو دیتے ہیں۔ اداروں کی بجائے مخصوص افراد پر بھروسہ کرنے سے سازشی ذہنیت کو فروغ ملتا ہے اور معاشرے میں سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ عدم استحکام، عدم تحفظ اور عدم مساوات معاشرے کا مقدر بن جاتے ہیں۔