اہم ترین بات اعتزاز احسن بتانا بھول گئے

برسوں ترسوں اعتزاز احسن پارلیمنٹ میں بولے اور خوب بولے۔ وہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں‘ کے دعویدار تو نہیں تھے لیکن سچی بات ہے کہ ایسا اعمال نامہ اور خاندانی تذکرہ کوئی اور کہاں سے پیش کر سکے ہے۔ ان کے دادا چودھری بہاول بخش نے تحریک پاکستان میں پچاسی سال کی عمر میں گرفتاری دی۔ یہ تحریک پاکستان کے معمر ترین حوالاتی تھے۔ پھر ان کے والد چودھری احسن علیگ سرکاری نوکری چھوڑ کر پاکستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ سروس کے دوران بھی ان کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ جب وہ گجرات میں تحصیلدار تھے تو وہاں مسلم لیگ کا دفتر کھولے بیٹھے رہے۔ گجرات ان دنوں کمشنر راولپنڈی کی عملداری میں تھا۔ ادھر سے سرزنش بھی آئی یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا پھر تحریک پاکستان میں جیل‘ حوالات کی سعادت سے محروم بھی نہیں رہے۔ پیروں فقیروں اور اللہ والوں کی اس سرزمین میں ماں کے پیٹ میں ولی لوگوں کا شہرہ بہت سننے میں آیا لیکن ماں کی گود میں قیدی ایک ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ میں یہ بات تحریک پاکستان کے تناظر میں لکھ رہا ہوں۔ ماں کی گود میں قید کا اعزاز جناب اعتزاز احسن کو ہی حاصل ہے۔ یہ ان دنوں اپنی والدہ محترتہ رشیدہ جہاں کی گود میں تھے۔ جب انہوں نے تحریک پاکستان میں گرفتاری دی۔ ابھی بات ختم کہاں ہوئی ہے۔ لندن سے بیرسٹری کی تعلیم مکمل کر کے یہ اپنے وطن لوٹے۔ دوستوں عزیزوں کے اصرار پر مقابلہ کے امتحان میں بیٹھ گئے‘ جو انہیں دنوں ہونے والا تھا۔ انہوں نے اس امتحان میں متحدہ پاکستان میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اب تو ہماری فوجی اور سول حکومتوں نے مل جل کر ان ’’شہزادوں‘‘ کے کروفر کو قدرے گہنا دیا ہے۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ڈپٹی کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر ہوا کرتا تھا۔ ان کے نام کے آگے صاحب بہادر لکھنا ضروری ہوتا تھا قدرت اللہ شہاب کی شہرہ آفاق کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں ڈپٹی کمشنر والا باب پڑھیں اور سول سروس کے احوال و مقامات ذہن میں لائیں۔ پھر کیا ہوا؟ نوجوان اعتزاز احسن نے یہ سروس قبول نہ کر کے بیورو کریسی کے منہ پر ایک زور دار بیورو کریٹک طمانچہ دے مارا۔ اب آگے چلتے ہیں ۔ان کے اعمال میں کسی فوجی آمر کی رفاقت کے چند لمحے بھی شامل نہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے انہیں بھٹو کیس میں پیروی کی آفر کی موصوف بتاتے ہیں کہ ان دنوں میں ایک نوجوان بریف لیس وکیل تھا۔ بیشک مجھے پیسے بھی چاہئیں تھے اور مصروفیت بھی۔ لیکن میں نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے انکار کر دیا۔ انہوں نے اور بھی بہت کچھ بتایا۔ ان کی زندگی میں چیف جسٹس بحالی تحریک کا ذکر بھی ایک روشن باب ہے۔ بہت کچھ بھول گیا ہوں۔ جتنا حافظے نے ساتھ لکھ دیا ہے۔ ایک بات میرے ذہن میں بری طرح کھٹک رہی ہے کہ جناب اعتزاز احسن اپنا اصلی کارنامہ بتانا بھول گئے۔ ’’قسم ہے قلم کی اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قلم اور کتاب کی قسم کی کھائی۔ میں بیرسٹر اعزاز کی کتاب ’’سندھ ساگر اور قیام پاکستان‘‘ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جس کی سطر سطر وطن کی مٹی کی محبت سے لبریز ہے۔ اعتزاز احسن کا تعلق سیاستدانوں کی اس کمیاب نسل سے ہے جو محض زبانی الفاظ پر تکیہ نہیں کرتے۔ بلکہ تحریر میں بھی ان کی حیثیت مسلمہ  ہے۔ اعتزاز احسن نے اپنی کتاب ’’سندھ ساگر اور قیام پاکستان ‘‘ کے آغاز میں لکھا۔ ’’میں ماضی بعید کی طرف یادوں کے سفر پر نکلا تو مجھ پر یہ راز کھلا کہ چھ ہزار سال کی معلوم تاریخ میں سے ساڑھے پانچ ہزار سال تک پاکستان ایک علیحدہ اکائی کے طور پر قائم رہا۔ اس انکشاف نے مجھے اپنے بارے میں ایک نئی آگہی دی کہ میں ایک شاندار تسلسل کا حصہ ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا۔ ’’میں قصے کہانیوں‘ روایات‘ گیتوں اور رسومات کے ذریعے پاکستان کی دریافت نو کے سفر پر گامزن ہوا ہوں اور قصبہ کہانی‘ روایت اور رسم انتہائی قدیم سے نسبتاً جدید تک اور ما قبل از اسلام سے بعد از اسلام تک مجھے یقین دلاتی ہے کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کی زمینوں پر ہمیشہ سے ایسی آزاد ریاست یا خطہ موجود رہا ہے جو ہند سے بالکل الگ تھا۔ ‘‘ انہوں نے اس کتاب میں تاریخ کتب کے حوالے سے یہ بات ثابت کی ہے کہ پاکستان کوئی نیا ملک نہیں اور نہ ہی اس کی سرحدیں مصنوعی ہیں بلکہ اس ملک کی سرحدیں چھ ہزار سال کا تاریخی پس منظر لئے ہوئے ہیں۔ اس ذہین فطین وکیل نے اکھنڈ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا مقدمہ بڑی مہارت اور جانفشانی سے پیش کیا ہے دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان دوستی‘ برابری اور پرامن بقائے باہمی کے اصول پر ہی ممکن ہے اگرچہ ہمارے اختلافات زیادہ ہیں لیکن ہمارے باہمی مفادات‘ ہمارے اختلافات سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت کو یہ بات سوچنی چاہئے کہ دو ہمسایہ ایٹمی ملکوں کے درمیان میں کوئی نہیں جیت سکے گا۔ آخر کار فتح صرف موت کی ہو گی۔ آج کے حالات میں اس کتاب کی اہمیت کچھ اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ آج بھارت کا ہیرو مہاتما گاندھی کی بجائے پٹیل ہے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ میں متعصب ہندو پٹیل کی مسلم دشمنی کی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت کی موجودہ حکومت گاندھی نگر میں تین کروڑ ڈالر خرچ کرکے پٹیل کا اتنا بڑا مسجم بنانا چاہتی ہے جو نیو یارک کے مجسمہ آزادی سے بڑا ہو گا ’’سندھ ساگر اور قیام پاکستان‘‘ شکل میں اعتزاز احسن کی کاوش ان کے حسب نسب اور اعمال نامے‘ سب پر بھاری ہے لیکن وہ اس کا ذکر پارلیمنٹ میں کرنا بھول بیٹھے ہیں۔ پس تحریر: گکھڑ گوجرانوالہ کے نواح میں جی ٹی روڈ پر واقع ایک قصبہ ہے۔ تحریک انصاف کے میاں محمد اقبال ایڈووکیٹ یہیں کے رہنے والے ہیں۔ ان کا انصاری برادری سے تعلق ہے۔ قدرے بہتر مرتبہ و مقام والے انصاری ’’میاں صاحب ‘‘ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ موصوف ایک تصویر میں سنرل جیل گوجرانوالہ سے رہائی پر اپنی انگلیوں سے وی کا نشان بنائے باہر آ رہے ہیں یہ بھولے بادشاہ نہیں جانتے کہ کاہے کی کامیابی اور کدھر کی رہائی؟ ابھی تو ہم اپنی مروجہ سیاست سے بغاوت کا محض سوچ ہی رہے ہیں اور زمین کی ملکیت کے رشتے کو ڈسکس کرنے کے بارے ابھی سوچنا شروع بھی نہیں کیا۔ سرکار! ابھی کامیابی کوسوں دور ہے۔ سردست ہماری انگلیاں وکٹری کا نشان بھول ہی جائیں تو اچھا۔ چلے چلو وہ منزل ابھی نہیں آئی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...