پولیس کا پھر روائتی تشدد۔۔۔۔؟

تیزی سے بگڑتی غیر یقینی صورتحال ہے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ 14اگست سے جاری احتجاجی دھرنوں کے منطقی انجام کاوقت اب کتنا قریب آپہنچا ہے زیادہ دشوار نہیں رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حکومت، طاہرالقادری اور عمران خان کے مابین جاری اس تاریخی سیاسی جنگ کے فیصلے میں صرف چند دن یا دونوں حالتوں میں اب صرف چند گھنٹے اور باقی رہ گئے ہیں تو بے جانہ ہوگا۔۔۔؟؟؟ حالات اس نہج پے پہنچ چکے ہیں کہ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے آزادی مارچ کے شرکاء اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپوں کا آغاز ہوچلا ہے اب تک کی رپورٹ کے مطابق پونے 7سو سے زائد شرکاء شدید زخمی ہوچکے ہیں جن میں بچے اور خواتین کی بھاری تعداد شامل ہے۔عمران خان نے واضح کردیا کہ ان واقعات کے تناظر میں ہم نواز شریف، چودھری نثار، خواجہ سعد رفیق اور آئی جی اسلام آباد خالد خٹک کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروائیں گے۔ دوسری جانب مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال سے انکار پر اسلام آباد کے سینئر سپرینڈنٹ پولیس نیکو کارا تبدیل کردیا گیا۔ اس طرح ایس پی صدر زون کیپٹن (ر) الیاس نے بھی طاقت کے استعمال پر اپنے عہدے پر کام کرنے سے انکار کردیا.....پولیس کے دو اعلیٰ افسران کے اس انکار اور آئی جی آفتاب احمد چیمہ کا بغیر تحریرہ احکامات دھرنے کے شرکاء کے خلاف فورس کے استعمال پر رخصت پر چلے جانے کے اقدام سے پولس فورس کو زبردست دھچکا لگا ہے۔ اور تو اور خواجہ سعد رفیق نے اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء پر پولیس کا وحشیانہ تشدد پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ماڈل ٹائون میں بھی پولیس کے اسی طرح کے تشدد سے حکومت کو بدنام کیاگیا ہے۔ پولیس فوراً اپنا رویہ درست کرے؟ تازہ ترین اعلانات کے مطابق ریڈزون میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے میڈیا نمائندوں پر تشدد، لاٹھی چارج اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ سے میڈیا کے 10نمائندے شدید زخمی ہوچکے ہیں پاکستان بھر کی جرنلسٹ تنظیمیں پولیس کے اس وحشیانہ اقدام کی مذمت کرتے ہوئے دھرنے دے رہی ہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے گو وعدہ کیا ہے کہ صحافیوں پر تشدد کرنے والے تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی تاہم ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایک بار پھر حکومت کو شرمندہ کرایا ہے ادھر پنجاب پولیس کی خاتون ڈی ۔ ایس۔ پی خدیجہ تسنیم نے بھی ریڈ زون میں خواتین، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں پر بہیمانہ پولیس تشدد پر بطور احتجاج مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ پولیس افسران کے حکومتی احکامات نہ تسلیم کرنے کے ایسے واقعات پہلی مرتبہ رونما ہوئے ہیں…کیا ہی اچھا ہوتاکہ حکومت طاقت استعمال کرنے کی بجائے صرف اور صرف مذاکرات کو اہمیت دیتی۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہاہے۔ برطانوی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے پولیس کی جان سے کئے تشدد کی بھرپور کوریج کی ہے جو 14اگست سے جاری ان دھرنوں کی پہلی کوریج ہے.....؟ آئندہ چند روز میں دھرنے اور ہنگامے مزید شہروں میں پھیلنے ک اندیشہ موجود ہے۔ جبکہ عمران خان اور طاہرالقادری کو حکومت کسی وقت گرفتار کرنے کی حکمت عملی تیار کرچکی ہے لیڈر جب گرفتار ہوجائیں یا ان پر تشدد کرنے کے بعد آئینی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے تو عوام کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا اس وقت کیا لائحہ عمل ہوتاہے عالمی برادری حالات و واقعات کو کس نظر سے دیکھتی ہے سفارت کار اور بیرون ممالک سے آئے سرکاروں کو کونسا رویہ اختیار کرنا پڑتاہے۔ مہذب دنیا میں احتجاج کا عوام کو مکمل حق دیا جاتا ہے کہ جمہوریت کی یہی ایک خوبصورتی ہے طاہر القادری اور عمران کو گرفتار کرنے سے معاملات حل ہوئے نظر نہیں آرہے ۔

ای پیپر دی نیشن