مریض بابل میں بخت نصر کے محل کے سب سے خوبصورت کمرے میں ایک آرام دہ بستر پر دراز تھا۔ اُس نے نیم وا آنکھوں سے کھڑکی پر پڑے پردوں کو لہراتے دیکھا تو اس کی نظروں کے سامنے دو دہائی پہلے والے مقدونیہ کے گاؤں میزا کے مناظر گھوم گئے، اُسے درگاہ الحوریات یاد آرہی تھی جہاں وہ بطلیموس، ہیفاسچن اور کاساندر جیسے یونانی جرنیلوں اور امرا کے بچوں کے ساتھ دنیا کے نامور فلسفی ارسطو کے ہاتھوں تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزرا تھا۔ اچانک اس کی سانس اکھڑنے لگی تو طبیب نے مریض کے پپوٹے کھول کر آنکھ کی پتلیاں دیکھیں، اوپر نیچے ہوتی پتلیوں میں 336 قبل مسیح کے مناظر کا عکس پھریرے لے رہا تھا جب فلپ کے قتل کے بعد مریض کی تاج پوشی ہو رہی تھی۔ مریض نے پوری آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو بلقان کی مہم جوئی کے خونیں واقعات ایک ایک کر کے اس ذہن میں گردش کرنے لگے، اسی مہم جوئی کے دوران اُسے فتح کا نشہ لگا تھا۔ اناطولیہ، شام، مصر اور بابل کی فوجیں اس کے سامنے آ کر کٹ رہی تھیں، ملک فتح ہو رہے تھے مریض نے آنکھ جھپکی تو اس کی سب سے بڑی فتح کے دلفریب مناظر سامنے آ گئے۔ یہ فتحِ ایران کے مناظر تھے۔ وہ ایران کی سرحد پار کر کے سطح مرتفع پوٹھوہار میں داخل ہُوا تو دریائے جہلم کے کنارے پورس مقابلے پر موجود تھا، ایران جیسی عالمی طاقت کو روند ڈالنے والی طاقت کیلئے بھلا پورس کیا چیز تھی؟ پوٹھوہار کے راجاؤں کو اپنا مطیع بنانے کے بعد اب سارا مشرق اُس کے سامنے کھلا تھا، وہ دنیا کا آخری کنارہ دیکھنے کیلئے آگے بڑھنا چاہتا تھا لیکن سفر اور لڑائی کی تھکان کے مارے فوجیوں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا، مجبوراً اُسے واپسی کا رُخ کرنا پڑا۔ واپسی کی سوچ ذہن میں آتے ہی مریض نے ہچکی لی اور اُسے سانس گلے کی پھانس محسوس ہونے لگی۔ مؤرخ دیو دورس لکھتا ہے کہ ساتھی جرنیل بھاگتے ہوئے آئے اور حالتِ نزع میں دیکھ کر مریض سے کہا ’’وصیت لکھوا دیں کہ آپ کے بعد سلطنت کون چلائے گا؟ ریاست کا والی کون ہو گا؟ اور رعایا کسے اپنا بادشاہ کہے گی؟‘‘ مریض نے آنکھیں کھولیں ’’ وہی جو سب سے طاقتور ہو گا‘‘ یہ کہنے کے بعد مریض کی سانس پھر پھولنا شروع ہو گئی۔ بستر مرگ پر آخری سانسیں گنتا یہ مریض اپنے وقت کا سب سے طاقتور حکمران اور فاتح کوئی اور نہیں بلکہ اسکندر اعظم تھا۔ اسکندر اعظم محض اپنی فتوحات سے ہی نہیں پہچانا جاتا بلکہ اپنے بروقت فیصلوں کی وجہ سے بھی تاریخ میں مشہور ہے یہ اسکندر اعظم کے بروقت فیصلے ہی تھے، جن کی وجہ سے اسکندر اپنی مختصر سی عمر میں تاریخ کا سب سے بڑا فاتح بن کر ابھرا اور پھر اس جیسا دوسرا کوئی پیدا نہ ہو سکا۔ تاریخ میں اتنی بڑی کامیابی کے باوجود اسکندر اعظم کی موت کے بعد جلد ہی اس کی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ بستر مرگ پر پڑا اسکندر یونانی اپنے تخت کے وارث کا فیصلہ کر سکا نہ ہی اس مقصد کیلئے کوئی نظام وضع کر سکا۔لیکن جس سیاسی رہنما کو تاریخ ساز ہونے کا زعم ہو جائے یا جو حالات کا جائزہ لیے بغیر تاریخ بنانے کے خبط میں مبتلا ہو جائے وہ یقیناً یہ بات نہیں سمجھ سکتا۔ کچھ ایسا ہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھ ہوا۔ کوئی ایک غلطی ہوتی تو شاید مؤرخ معاف بھی کر دیتا، لیکن اگر کوئی شخص غلطی پر غلطی کئے جانے کو عین ایمان سمجھ لے تو پھر تاریخ اس سے بھلا کس طرح صرفِ نظر کر سکتی ہے؟ کیا اگست میں مارچ ممکن تھا؟ جو بے جا ہٹ دھرمی کی وجہ سے اب ’’ستمبر میں مارچ‘‘ ہو چکا ہے۔ دس لاکھ افراد اسلام آباد لانے کی آرزو تھی، لیکن لاہور سے دس ہزار بھی ساتھ نہ آ سکے، نوے فیصد مطالبات مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی تسلیم کیے جا چکے تھے، لیکن محض ایک ایسے مطالبے پر تحریک انصاف کے سربراہ نے ساری پارٹی داؤ پر لگا دی جو دو ماہ پہلے تک مطالبات کی فہرست میں دور دور تک شامل ہی نہ تھا۔ اسلام آباد پہنچ کر بھی خان صاحب نے حالات سے کچھ نہ سیکھا اور اس کی بجائے نوجوانوں کی امیدوں کی مرکز اپنی بھری پُری جماعت آمرانہ فیصلوں کی نذر کرنے پر تُل گئے۔ جس نے حکم نما فیصلوں پر اعتراض کیا اُسے کھڑے کھڑے پارٹی سے نکال دیا اور جس نے سمجھانے کی کوشش کی اُسے راستے الگ کرنے کا روکھا اور ٹکا سا جواب دیدیا۔ کیا سیاسی جماعتیں اس طرح چلتی ہیں؟ اس طرح تو بادشاہتیں بھی نہیں چلتیں، ورنہ شاہی درباروں میں امرائ، مصاحبین اور مشیران کی کرسیوں کی جگہ صرف غلاموں کی جھکی ہوئی گردنیں ہوتیں۔ قارئین کرام! اسکندر اعظم آخری سانسیں لے چکا تو تخت کے حصول کیلئے کشمکش شروع ہو گئی۔ سبھی جرنیل اپنا زور بازو آزمانے لگے۔ اسکندراعظم کی لاش پر سونے کا خول چڑھا کر اسے شہد سے بھرے تابوت میں رکھ کر محفوظ کر دیا گیا تھا۔ ایک کاہن نے پشین گوئی کی کہ جہاں اسکندر کو دفن کیا جائے گا وہ زمین ہمیشہ ذرخیز رہے گی اور وہاں کے لوگ ہمیشہ خوشحال اور خوش و خرم رہیں گے، اِس پشین گوئی نے ایک نئی جنگ چھیڑ دی اور اسکندر اعظم کو مرنے کے بعد بھی چین نصیب نہ ہو سکا، اس کی میت اور تخت کے حصول کیلئے ’’طاقتور‘‘ چالیس سال تک جنگیں لڑتے رہے۔ یوں محض ایک غلط فیصلے نے اسکندر اعظم کی عظیم سلطنت کے حصے بخرے کر کے رکھ دیے، جس کے بطن سے بطلمیہ، سلوقیہ اور بیرغامون جیسی عظیم سلطنتوں نے جنم لیا، جو صدیوں تک قائم رہیں۔ مؤرخین جب سیاسی غلطیوں کی درجہ بندی کرتے ہیں تو حیران کن طور پر اسکندر اعظم کی اس غلطی کو تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں لیکن مؤرخین کپتان کی اِس غلطی کو کس درجے پر شمار کریں گے؟ کاش کوئی عمران خان کو سمجھائے کہ غلط فیصلوں سے ہاتھوں سے بنائی جانے والی ’’سلطنتیں‘‘ ہی تباہ نہیں ہوتیں بلکہ ’’بادشاہوں‘‘ کا ایک غلط فیصلہ اُس کا اپنا مُردہ بھی خراب کر دیتا ہے۔
غلط فیصلہ بادشاہ کا مردہ خراب کردیتا ہے
Sep 08, 2014