”بوقت زیارت بیت اﷲ کے حاجی امداد اﷲ صاحب کہ اہل کشف و کرامت تھے خود ہی نعمت باطنی بخشنے کو اس عاجز کی طرف متوجہ ہوئے ۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ جو چہرہ ہم نے دیکھا ہے وہ جہان میں نظر نہیں آتا ۔ ان کے کمال اصرار کے بعد کہا گیا کہ ہم کو تو حاجت نہیں لیکن آپ کی عنایت بھی جو آپ کی رضامندی سے ہے غیر مشکور نہیں اور نیز یہ عنایت بھی ہم اپنے شیخ کی جانب سے جانتے ہیں۔ بعدہ انہوں نے سلسلہ صابریہ اکرام فرمایا“۔حضرت پیر صاحب چاہتے تھے کہ حرمین طیبین میں قیام کیا جائے۔ حضرت حاجی صاحب نے بتاکید مراجعت کا حکم دیا اور فرمایا۔”ہندوستان میں عنقریب فتنہ برپا ہونے والا ہے۔ لہذا تم ضرور اپنے ملک ہندوستان میں واپس چلے جاﺅ۔ بالفرض اگر آپ ہند میں خاموش ہو کر بیٹھ بھی جائیں گے تو پھر بھی وہ فتنہ ترقی نہ کر سکے گا ۔پس ہم حضرت حاجی صاحب کے اس کشف کو اپنے یقین کی روح سے مرزا قادیانی کے فتنہ سے تعبیر کرتے ہیں“۔پیر صاحب نے مرزا قادیانی کے فتنے کی روک تھام کے لئے سخنے، قدمے اور قلمے کام کیا۔ انہوں نے 1317ھ/1899-1900ءمیں ایک رسالہ ”شمس الہدایت فی ثبات حیات المسیح“ لکھا۔ انکی یہ کوشش بہت پسند کی گئی ۔ مولانا عبدالجبار غزنوی (م 1331 ھ ) نے پیر صاحب کو لکھا: ”کتاب شمس الہدایت در رد ملاحدہ دہر و زنادقہ عصر خذلہم اﷲ از نظر احقر گزشت۔ از مطالعہ وعظ وافرد خیر ظاہر برداشتم“مرزا صاحب نے کتاب کا کوئی جواب دینے کی بجائے 22 جولائی 1900ئ/23 ربیع الاول 1318ھ کو ایک طویل اشتہار چھاپ دیا اور پیر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے عربی زبان میں تفسیر نویسی کا چیلنج داغ دیا۔پیر صاحب نے چیلنج قبول کرتے ہوئے لکھا کہ مرزا صاحب علماءصوفیاءکو دعوت دیتے رہتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ علماءسے اپنے دعویٰ اور عقائد پر گفتگو کریں اور اگر وہ عربی زبان میں رہ کر مہارت دکھلانے پر بضد ہیں تو اس کے لئے بھی حاضر ہیں۔ اشتہار بازی کے بعد 25 اگست 1900ءکو شاہی مسجد لاہور میں مناظرہ طے پایا۔ پیر صاحب اور دوسرے علماءشاہی مسجد میں وقت مقررہ پر پہنچ گئے مگر مرزا صاحب نے راہ فرار اختیار کی۔ اس کے بعد مرزا صاحب نے تفسیر سورة فاتحہ (اعجاز المسیح) شائع کر کے اپنی بات رکھنے کی کوشش کی مگر پیر صاحب نے ”سیف چشتیائی“میں مرزا کی عربی دانی کی قلعی کھول دی ۔ پیر صاحب نے صرف و نحو، لغت، بلاغت، معانی اور منطق کے قواعد کی رُو سے ”اعجاز المسیح“ کی اغلاط گنائی ہیں نیز سرقہ، تحریف اور التباس کے تقریباً ایک فی صد اعتراضات کئے ہیں جو آج تک قائم ہیں۔ ”سیف چشتیائی“ کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانویؒ (1362 ھ) نے اپنی تفسیر ”بیان القرآن“ (زیر سورة النسائ، آیت 157) میں لکھا ہے کہ حیات و موت عیسوی کی بحث میں کتاب سیف چشتیائی قابل مطالعہ ہے ۔ اسی طرح مولانا محمد انور شاہ کاشمیری نے اپنی تصنیف عقیدة الاسلام فی حیثیت عیسیٰ علیہ السلام کے دیباچہ میں اس کی تعریف کی ہے۔پیر سید مہر علی شاہ ؒنے مولانا عبدالاحد خانپوری کے ساتھ بعض مسائل میں اختلاف کیا اور دونوں طرف سے رسالہ بازی ہوئی ۔ نذر و نیاز، سماع موتیٰ، استمراد وغیرہ ان رسائل کے موضوعات تھے۔پیر صاحب صوفی صافی اور فلسفہ وحدت الوجود پر گہری نظر رکھتے تھے۔ شیخ اکبر ابن عربی (م 638 ھ) کے رمز شناس تھے۔ علامہ اقبال نے بھی اس مسئلے کے لئے ان کی طرف رجوع کیا۔ انہیں ایک خط میں لکھتے ہیں: ”مخدوم و مکرم حضرت قبلہ ۔ السلام علیکم! اگرچہ زیارت اور استفادہ کا شوق ایک مدت سے ہے تاہم اس سے پہلے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا۔ اب اس محرومی کی تلافی اس عریضہ سے کرتا ہوں۔ گو مجھے اندیشہ ہے کہ اس خط کا جواب لکھنے یا لکھوانے میں جناب کو زحمت ہو گی۔ بہرحال جناب کی وسعت اخلاق پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ چند سطور لکھنے کی جرا¿ت کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان بھر میں کوئی اور دروازہ نہیں جو پیش نظر مقصد کے لئے کھٹکھٹایا جائے۔میں نے گزشتہ سال انگلستان میں حضرت مجدد الف ثانیؒ پر ایک تقریر کی تھی جو وہاں کے ادا شناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ اب پھر ادھر جانے کا قصد ہے اور اس سفر میں حضرت محی الدین ابن عربی پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے ۔ نظر بایں حال چند امور دریافت طلب ہیں۔ جناب کے اخلاق کریمانہ سے بعید نہ ہو گا اگر ان سوالات کا جواب شافی مرحمت فرمایا جائے۔۱۔ اول یہ کہ حضرت شیخ اکبر نے تعلیم حقیقت زمان کے متعلق کیا کہا ہے اور دیگر متکلمین سے کہاں تک مختلف ہے۔۲۔یہ تعلیم شیخ اکبر کی کون کون سی کتب میں پائی جاتی ہے اور کہاں کہاں ۔ اس سوال کا مقصود یہ ہے کہ سوال اول کے جواب کی روشنی میں خود بھی ان مقدمات کا مطالعہ کر سکوں۔۳۔حضرات صوفیہ میں اگر کسی بزرگ نے بھی حقیقت زمان پر بحث کی ہو تو ان بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں۔ مولوی سید انور شاہ مرحوم و مغفور نے مجھے عراق کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھا۔ اس کا نام درایتہ الزمان۔ جناب کو ضرور اس کا علم ہو گا ۔ میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے اس لئے مزید روشنی کی ضرورت ہے اس لئے مجھے یہ عریضہ لکھنے میں تامل تھا لیکن چونکہ مقصود خدمت اسلام ہے مجھے یقین ہے کہ اس تصدیعہ کے لئے جناب مجھے معاف فرمائیں گے اور جواب باصواب سے ممنون فرمائیں گے۔ باقی التماس دعا۔“پیر صاحب 29 صفر 1356ھ/11 مئی1937ءکو فوت ہوئے اور گولڑہ شریف میں دفنائے گئے۔ ان سے حسب ذیل کتب یادگار ہیں۔۱۔تحقیق الحق کلمة الحق (فارسی 1315ھ) ۔شمس الہدایت فی اثبات حیات المسیح (1317ھ) ۔سیف چشتیائی (1319ھ) ۔اعلا کلمة اﷲ فی بیان اہل بہ لغیر اﷲ (1322ھ) ۔الفتوحات الصمدیہ (1325ھ) ۔تصفیہ ما بین سنی و شیعہ۔فتاویٰ مہریہ۔مکتوبات مہریہ۔پیر صاحب پنجابی اور فارسی میں کبھی کبھی نعتیہ اشعار بھی کہتے تھے اور مہر تخلص استعمال کرتے تھے ۔ ان کی اس پنجابی نعت سے شاید ہی کوئی پنجابی بولنے والا ناآشنا ہو۔
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنائ
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی ؒ شریعت و طریقت کے رہنما تھے ۔ انہوں نے ملکی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ جب تحریک خلافت اٹھی تو آپ نے کسی کی پرواہ کئے بغیر شرعی نقطہ نظر کو وضاحت سے پیش کیا۔ ترکی سلطنت کو خلافت اسلامیہ کا درجہ نہیں دیتے تھے تاہم آپ کی تمام ہمدردیاں ترکی مسلمانوں کے ساتھ تھیں- چنانچہ طرابلس ، بلقان کی جنگ کے موقع پر گھر کے زیورات اور اصطبل کے گھوڑے تک فروخت کر کے قیمت چندہ میں دے دی تھی۔ تحریک ہجرت کے بارے میں فرمایا کہ اس غیر شرعی ہجرت کا نتیجہ خراب نکلے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آپ نے ذبیحہ گاﺅ کی ممانعت کو ناپسندگی کی نظر سے دیکھا ۔ کانگریسی لیڈروں نے جب انگریز سے ترک موالات پر زور دیا تو فرمایا :”یہود اور مشرکین کی عداوت قرآن شریف میں صراحتہً مذکور ہے ۔ پس ترک موالات ہندو اور انگریز اور یہود سب سے ہونی چاہئے۔ تفریق اور ترجیح بلا مرجع (یعنی انگریز سے مقاطعہ اور ہندو سے دوستی) ٹھیک نہیں ہے۔“ہمارے خاندان میں زیادہ تر پیر مہر علی شاہؒ اور ان کی اولاد میں ہی بیعت لئے ہوئے ہیں۔ پیر مہر علی شاہؒ کے بعد ان کے صاحبزادے پیر سید غلام محی الدین گولڑوی (بابوجی) سے راقم الحروف کے دادا محمد سلطان اور بابوجی کے صاحبزادے شاہ غلام معین الدین بڑے لالہ جی سے راقم کے والد بزرگوار جبکہ ان کے چھوٹے بھائی پیر سیّدشاہ عبدالحق صاحب چھو ٹے لالہ جی سے راقم بیعت لئے ہوئے ہے۔پیر سید شاہ عبدالحق گیلانی سجادہ نشین دربار عالیہ گولڑہ شریف کی زیر صدارت 116 ویں سالانہ عالمی خاتم النبیین کانفرنس 25 اگست2016 ءکو منعقد ہوئی جس میں وطن عزیز کی معروف خانقاہوں کے سجادگان، مشائخ، علمائ، دانشور اور علمی و روحانی شخصیات کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی اور پیر سید مہر علی شاہ کی 25 اگست 1900 ءمیں تحفظ ختم نبوت کے تاریخی کردار کو اُجاگر کیا گیا اور ان کی مساعی جمیلہ کی بدولت 1937 ءمیں بہاولپورکی عدالت عالیہ نے قادیانیوں کو کافر قرار دیا تھا ۔ بعد میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں پارلیمنٹ سے اقلیت قرار دیا تھا۔ (ختم شد)