پیشہ وارانہ غفلت یابدیانتی

ترقی یافتہ ممالک میں ہیلتھ کیئر کو اولیت دے کر درحقیقت مقام انسان اور احترام انسانیت کو سب سے مقدم سمجھا جاتا ہے لیکن بدقسمتی کی بناپر پاکستان میں محکمہ صحت کے قبیلہ ابلیس نے ہوس زر میںخود کو اِس قدر اندھا کر لیا ہے کہ انہیں قدر انسانیت کی پرواہ نہیں رہی۔انہیں غرض ہے تو فقط اپنے اثاثہ جات بنانے ، کاٹن سوٹ پہننے اور حرام کی کمائی کو حرام کاری میں ضائع کرنے سے۔ یہ لوگ تخت لاہور کو قصور وار قرار دے کر مقامی بدعنوانیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن سچائی کی روشنی کو لاکھ پردوں میں بھی چھپا نہیں سکتے۔ ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غاز ی خان صوبہ بلوچستان سے ملحق ہونے کی بناپر ایک انتہائی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس ہسپتال میں لورالائی ، بارکھان ، رکنی ، روجھان، راجن پور، وہوا اور تونسہ سمیت دیگر مضافات سے سالانہ ہزاروں مریض ٹوٹی پھوٹی شاہراہوں اور دشوار ترین پہاڑی گزر گاہوں کے کھٹن سفر کے بعدشفا کی اُمید میں یہاں پہنچتے ہیں ۔ ہسپتال کا ہر شعبہ ایک جداگانہ باب ظلمت کا حامل ہے۔ کسی بھی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں دستیاب طبی سہولیات اُس ہسپتال کا آئینہ ہوتی ہیں۔ بدقسمتی کی بناپر ٹیچنگ ہسپتال کا آئینہ یعنی ایمرجنسی وارڈ اِس قدر اندھا ہو چکا ہے کہ ہسپتال انتظامیہ کو اپنی کرپشن اِس اندھے آئینہ کی بناپر نظر نہیں آرہی۔ جبکہ ہرروز سینکڑوں انسانوں کی علاج معالجہ کے نام پر تذلیل کی جاتی ہے۔حکومت پنجاب نے ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازیخان کو Bedding & Clothing کے بجٹ کے لیے گذشتہ مالی سال 2015-16میں مبلغ 3,199,000/-روپے ، بجٹ 2014-15میں مبلغ 1,650,000/- روپے اور بجٹ 2013-14 میں مبلغ 1,775,000 روپے فراہم کیے لیکن ایمرجنسی وارڈ میں موجود بیڈز نہ صرف خستہ حالت میں ہیں بلکہ اکثرو بیشتر چادروں کے بغیر مریضوں کو بستر پر لیٹا دیاجاتاہے۔وارڈ میں زیر استعمال چادریں اِس قدر بوسیدہ ہو چکی ہیں کہ وہ جگہ جگہ پھٹی ہوئی ہیں۔ سفید چادروں کی بوسیدگی اور خونی دھبوں کے نشانات اپنی موجودگی کو سرعام ایمرجنسی واڈز سمیت دیگر تمام شعبہ جات میں خود ظاہر کر رہے ہیں۔ ایمرجنسی وارڈ میں تعینات چند ڈاکٹرز ایسے بھی ہیں جو اپنے فرعونی انداز گفتگو اور غیر پیشہ وارانہ رویہ کی بناپر لوگوں سے لڑتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ اُن کی پشت پناہی سیاسی نمائندگان کرتے ہیں۔ گذشتہ دنوںایمرجنسی وارڈ میں ایک مریض جوکہ مسلسل قے کر رہا تھا اور ٹھنڈے پسینے سے شرابور تھا ، اُسے ایک سنیئر ترین ڈاکٹر کے سامنے لایا گیا۔ مریض چونکہ کمزروی کی بناپر چل نہیں سکتا تھا اُسے ڈاکٹر آفس میں موجود کاﺅ چ پر لیٹا دیا گیا۔ مذکورہ ڈاکٹر سے التجاءکی گئی کہ وہ مریض کو فوری طور پر چیک کرئے لیکن ڈاکٹر نے اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے مریض کاطبی چیک اپ ، بلڈ پریشر اور نبض کی پڑتال کیے بغیر کہہ دیا کہ” مریض کی حالت ٹھیک ہے ۔ اِسے میں نے ریفر کر دیا ہے۔ کوئی ایمرجنسی نہیں ہے۔ آپ فلا ں روم میں جائیں“۔ ممتا کی ماری بے بس والدہ نے ڈاکٹر کی منت سماجت کی کہ اُس کے بیٹے کی حالت خراب ہے آپ پلیز چیک کر لیںلیکن اُس ڈاکٹر کی فرعونیت میں کوئی فرق نہ پڑا۔ اِسی ثنا میں ماں کو جوش آیا تو آواز احتجاج بلند کی۔ شور مچا تو تمام سٹاف اکٹھا ہو گیا۔ ایک نوجوان ڈاکٹر نے مریض کی بگڑتی حالت کودیکھ کر فور ی طور پر علاج شروع کر دیا۔ مریض کو مسلسل قے آرہی تھی لیکن ہسپتال عملہ کے پاس قے روکنے والا انجکشن تک موجود نہ تھا۔ مریض کے لواحقین کو ایک لمبی سی ادویا ت کی لسٹ تھما کر کہہ گیا کہ فوری طور پر یہ ادویات بازار سے خرید لائیںحتی کہ اُ س لسٹ میں قے اور سر درد روکنے والی بنیادی اہم ادویات بھی درج تھیں۔ بعدا زاں بات متعلقہ ایم ایس ہسپتال تک پہنچی تو موصوف نے پھر علاج کی شعبدہ بازی شروع کردی ۔ پھر اُ س مریض کو بستر پر چادر بھی فراہم کر دی گئی اور ڈاکٹر بھی چیک کرنے پہنچ گئے۔ شفا منجانب باری تعالیٰ ملتی ہے۔ بہرحال پانچ چھ گھنٹے بعد اُس مریض کی حالت سنبھلی تو اُ س نے سرکاری ہسپتال سے نکل جانا بہتر خیال کیا۔ یہ تمام صورت حال ہسپتال انتظامیہ کے نوٹس میں ہے۔ ابتدائی طور پر ایم ایس ہسپتال نے ڈاکٹر کی پیشہ وارانہ غفلت کو تسلیم کرتے ہوئے اُسے ایمرجنسی وارڈ سے شفٹ بھی کر دیا ‘اِس سارے معاملے کی باقاعدہ انکوئری بھی شروع ہوگئی ہے۔ لیکن پیشہ وارانہ رویے اور پنجاب ہیلتھ کئیر کمیشن کے مطابق طبی سہولیات کی عدم موجودگی کے متعلق جنم لینے والے سوالات پنجاب حکومت کی گڈ گورننس پر سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ ٹیچنگ ہسپتال کی شکایات سے کمشنر اور ڈی سی او ڈیرہ غازی خان تک آگاہ ہیں لیکن پھر بھی نجانے کیوں مصلحت پسندی کا شکار ضلعی حکومت سمیت عوامی نمائندگان خاموش ہیں۔ گذشتہ دنوں اِسی ایمرجنسی وارڈ سے اِسی مذکورہ ڈاکٹر کی غفلت کی بناپر ایک نومولودبچہ اغو ا ہو چکا ہے۔ اِسی ڈاکٹر نے اُس نومولود کو چلڈرن وارڈ میں شفٹ کرنے کی بجائے اُس دن بھی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اپنے ماتحت عملہ کو حکم دیا کہ اِس نومولودبچہ کو اگر آ کسیجن کی ضرورت ہے تو آکسیجن لگادوں۔ حالانکہ اُس نومولو د کو ایمرجنسی وارڈ میں آکسیجن لگانا ایک پیشہ وارانہ غفلت تھی ۔ 24کروڑ روپے کی ادویات کے فنڈزکے باوجود ایمرجنسی وارڈ میں قے اورسر درد کو روکنے والی میڈیسن کا موجود نہ ہو نا غفلت اور بدیانتی کو ظاہر کرتا ہے۔ پورا شہر جانتا ہے کہ فقط پانچ افراد اِ س پورے ہسپتال کی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ اُن پانچ افراد کی طرز زندگی اور اُن کی سرکاری تنخواہ کا موازانہ اُن کی دن رات کی کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عوامی نمائندگان سمیت اگر ضلعی حکومت کے معزز افسران مفت کی ادویات اور کمیشن خوری کی بناپر زیر سوال نہ ہوتے تو شاید اِس قبیلہ کا اب تک احتساب ہو چکا ہوتا اور ہزاروں مریضوں کو یہاں طبی سہولیات بھی میسر ہو چکی ہوتیں۔صد افسوس کرپشن کا یہ تالاب کسی ایک مچھلی سے نہیں بلکہ تمام گندی مچھلیوں کی بناپر گندا ہو چکا ہے۔

ای پیپر دی نیشن