”درباری“

تخت یا تختہ اور دشمن کی دیوار کو ہر صورت گرانے کو بے چین ہمارے معاشرے کے سیاست دانوں کا ”وکھری ٹائپ“کاہونا ایک فطری بات ہے۔ حکومت مخالف صفوں میں بیٹھے ہوں تو قطعاََ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن وہ بھی اقتدار میں بیٹھے ہوئے دکھائی دے سکتے ہیں۔”اقتدار میں بیٹھے ہوئے دِکھنے“والی بات میں نے سوچ سمجھ کر لکھی ہے۔ اصل اقتدار اس ملک میں ریاست کے دائمی اداروں نے 1958ءسے بتدریج اپنے قابو میں کرلیا ہے۔ سیاستدانوں کی حکومتیں کبھی کبھار شاید ہماری بوریت دور کرنے کے لئے منظرعام پر آجاتی ہیں۔ ان حکومتوں میں بیٹھے اور ان سے باہر جمع ہوئے مخالفین البتہ دل وجان سے ہر وہ قدم اٹھانے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں جو خلقِ خدا کو دیدہ وروں کی یاد دلادے۔ وہ ”مٹ جائے گی مخلوق تو....“والی دہائی مچانا شروع ہوجائے۔

جنرل مشرف کے اختتامی دور میں بہت دھوم دھام کے ساتھ ”میثاقِ جمہوریت“ نامی کوئی معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ہمارے چوٹی کے سیاست دانوں نے عہد کیا کہ وہ انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی حکومتوں کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے دیں گے۔ انہیں وقت سے پہلے گھر بھیجنے کے لئے غیر سیاسی قوتوں اور اداروں کے ساتھ مل کر محلاتی سازشوں میں ملوث نہیں ہوں گے۔
اس نام نہاد ”میثاق“ کو 2008ءمیں ہماری تاریخ کے تناظر میں نسبتاََ صاف اور شفاف ہوئے انتخابات کے چند دن بعد ہی لیکن بے دردی کے ساتھ بھلادیا گیا۔نواز شریف اور ان کی قیادت میں جمع ہوئی اپوزیشن نے اس ”میثاق“ کو نظرانداز کرنے کے لئے افتخار چودھری کا سہارا لیا۔ اصرار ہوا کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے موصوف کی بحالی ضروری ہے۔ آصف علی زرداری بضد رہے کہ اپنی برطرفی کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں ”چیف تیرے جاں نثار۔بے شمار بے شمار“ کے نعرے سننے کے بعد مشرف کے روبرو”انکار“ کرنے والا جج اب ”سیاسی“ ہوگیا ہے۔ اسے بصد احترام ریٹائرمنٹ کے دن گزارنے کے لئے تیار کیا جائے۔
عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے پر تلے نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے آصف زرداری کی ایک نہ سنی۔ پھر ایک دن نواز شریف صاحب اپنے ماڈل ٹاﺅن لاہور والے گھر سے نکل کر راولپنڈی کی جانب روانہ ہوگئے۔ گوجرانوالہ تک پہنچے تو عوام کا ایک جم غفیر ان کے ہمراہ ہوگیا۔ اسلام آباد کے ایوان ہائے اقتدار میں”ٹلیاں کھڑک گئیں“۔بالآخر فیصلہ ہوا کہ افتخار چودھری کو ان کے عہدے پر بحال کردیا جائے گا۔ ان دنوں اپنے تئیں جمہوریت اور آزاد عدلیہ کے پاسبان بنے نواز شریف کو اس فیصلے کی اطلاع چودھری اعتزاز احسن کے ذریعے ملی۔ افتخار چودھری کی جیپ چلاکر اسے ”ریاست ہوگی ماں کے جیسی“ منزل تک پہنچانے والے بیرسٹراعتزاز احسن کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے فون پر یقین دلایا تھا کہ افتخار چودھری کو بحال کیا جارہا ہے۔ خوشی کے ان لمحات میں جمہوریت کے ایک مستقل مجاہد اور میرے عزیزترین دوست چودھری اعتزاز احسن ،جنرل کیانی سے یہ پوچھنا بھول گئے کہ آرمی چیف انہیں ایک سیاسی فیصلے کی اطلاع اور اس پر عمل پیرائی کی گارنٹی کیوں دے رہے ہیں؟۔فرطِ مسرت کے ان لمحات میں نواز شریف اور اعتزاز احسن کو یہ بات بھی بھول گئی کہ افتخار چودھری کی بحالی کا ایک سفارشی فون اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ،ہیلری کلنٹن، کا بھی آیا تھا۔ ”قومی حمیت“ کے لئے ہر دم کڑھتے ہمارے کئی وطن پرستوں کو یہ فون نجانے کیوں ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نظر نہ آیا۔
بہرحال افتخار چودھری بحال ہوئے تو سوموٹو اقدامات کے ذریعے اس ملک کو سنوارنے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ پارلیمان اپنی بالادستی کو یقینی بنانے کے بجائے ان کے روبرو اپنے کئی اراکین کی ڈگریوں کو درست ثابت کرنے کی فکر میں مبتلا ہوگئی۔ وزراءاور سینئر سرکاری افسران پارلیمانی کمیٹیوں کے سامنے جوابدہی کے بجائے افتخار چودھری کے روبرو مجرموں کی صورت کھڑا ہونا شروع ہوگئے۔ ایک وزیر کو چودھری صاحب نے حج سکینڈل کے نام پر جیل بھی بھجوادیا۔
نام نہاد”بالادست“ ادارے کے اراکین کی ڈگریاں چیک کرتے اور وزراءاور سینئر سرکاری افسروں کی عدالتی ریمارکس کے ذریعے دھنائی کرتے افتخار چودھری نے بالآخر یوسف رضا گیلانی کو بھی گھیرلیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ”متفقہ طور“ پر منتخب ہوئے اس وزیر اعظم کو حکم صادر ہوا کہ وہ سوئس حکومت کو خط لکھ کر بتائیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نے غلطی سے یا لاعلمی میں ایک ایسے شخص کو اپنا صدر منتخب کرلیا ہے جس نے قومی خزانے سے رقوم چراکر انہیں اس ملک کے بینکوں میں جمع کررکھا ہے۔ حکومتِ پاکستان کو ان اکاﺅنٹس کی تفصیلات بہم پہنچائی جائیں۔
یوسف رضا گیلانی آئین کی وہ شقیں یاد دلاتے رہ گئے جو پاکستانی ریاست کے سربراہ کو اس کے دوراقتدار میں فوجداری مقدمات سے محفوظ رہنے کا یقین دلاتی ہیں۔ افتخار چودھری نے ان شقوں کو بے رحمی سے نظرانداز کردیا۔ یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مجرم ٹھہرادیا۔
آئین کا آرٹیکل 63واضح طورپر بیان کرتا ہے کہ قومی اسمبلی کے کسی رکن کو نااہل کرنے کا عمل سپیکر کے دفتر سے شروع ہوگا۔ اس کے سامنے کسی رکن کے خلاف الزامات کی تفصیلات رکھی جائیں تو صرف وہ ہی یہ ابتدائی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے کہ جو ثبوت والزامات اس کے سامنے رکھے گئے ہیں،الیکشن ٹربیونل کی جانب سے تفصیلی تفتیش کے قابل ہیں یا نہیں۔ آئین اور قانون کی بالادستی کے نام پر مسیحا بنے افتخار چودھری نے مگر اس تمام Processکو اپنے پاﺅں تلے روند ڈالا۔ قومی اسمبلی کی ان دنوں کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کو چٹھی لکھ دی کہ قائدِ ایوان -یوسف رضا گیلانی-اس ایوان کا رکن بننے کا اہل نہیں رہا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے تین صفحات پر مبنی جواب لکھ کر گیلانی کو بچانا چاہا۔ چودھری نثار علی خان کی قیادت میں مگر اپوزیشن والے یوسف رضا گیلانی کی نشست کے سامنے جمع ہوکر ”نوگیلانی-گوگیلانی“ کے نعرے لگاتے رہتے۔ بالآخر افتخار چودھری کے سپریم کورٹ کے لئے ”حیف ہے اس قوم پر“ کی دہائی مچاتے ہوئے گیلانی کو گھر بھیجنا آسان ہوگیا۔
گیلانی سے نجات پانے کے بعد نواز شریف نے کالا کوٹ پہن کر اس وقت کے DG ISI،جنرل پاشا کی فراہم کردہ معلومات کی بنا پر صدرزرداری کے خلاف”میموگیٹ“ والا تماشہ بھی رچایا۔ زرداری مگر حسین حقانی کی قربانی دے کر خود کو بچاگئے۔
اب نواز شریف خود وزیر اعظم ہیں۔ پانامہ-پانامہ کا شور برپا ہے۔ عمران خان کی جماعت اور شیخ رشید نے پانامہ کا جواز لے کر ان کے نااہل کروانے کا ریفرنس سردار ایاز صادق کے سامنے رکھ دیا۔ سپیکر سردار ایاز صادق نے نواز شریف کے خلاف فراہم کردہ ثبوتوں کو کافی نہ سمجھا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن سے یہ استدعا ضرور کردی کہ دانیال عزیز نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف جو مواد جمع کیا ہے اس پر نظر ڈال لی جائے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر نے اپنے حیران کن نظر آنے والے فیصلے کی وجوہات باقاعدہ لکھ کر خلقِ خدا کے سامنے رکھنے کا تردد منگل کی رات گئے تک نہیں کیا تھا۔ اس لئے میں ہرگز حیران نہیں ہوا جب اسی رات کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آئینی اعتبار سے اس ملک میں ”سب پربالادست“ ادارے-قومی اسمبلی- کے سپیکر ایاز صادق کو حقارت ونفرت سے عمران خان”نواز شریف کا درباری“کہہ کر پکارتے رہے۔
عمران خان جب یہ سب کررہے تھے تو مجھے اچانک خیال آیا کہ 24ستمبر کو”کاکڑ فارمولہ“ دہرانے کا بندوبست نہ بھی ہوا تو 2018ءکے انتخابات کے بعد ہی سہی تحریک انصاف بھی تو قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت بن سکتی ہے۔ وہ اس ایوان کا کاروبار چلانے کے لئے ایک سپیکر بھی منتخب کرے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے بنائے سپیکر کو آئندہ کی اپوزیشن”عمران خان کا درباری“ کہہ کر نہ پکارے؟۔انگریزی محاورہ ہے:What Goes Around Comes Around۔ایک دوسرے پر ہمہ وقت گند اُچھالتے ہمارے سیاستدان یقینی طورپر اس قوم کی اجتماعی نفرت کے حقدار ہیں۔ اس نفرت سے اگر کوئی ”دیدہ ور“ فائدہ نہ اٹھانا چاہے تو اس کا کرم ہوگا کہ ”بات اب تک بنی ہوئی ہے“۔

ای پیپر دی نیشن