”توجہ ہٹاﺅ نہیں ملک بچاﺅ پالیسی ہونی چاہئے“

Sep 08, 2016

سردار محمد اسلم سکھیرا....

پاکستان اس وقت جس گرداب میں پھنسا ہوا ہے اس کی نسبت کسی کو فکر نہیں ہر سیاسی لیڈر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ ملک کو کیا ہونے والا ہے اس پر کسی کی نظر نہیں۔ بین الاقوامی سازشیں اس وقت عروج پر ہیں لیکن ہر اسلامی ملک کے سربراہان ذاتی بقا کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔
اٹھارویں ترمیم کی شاید میاں نوازشریف معاونت نہ کرتے اگر تیسری بار وزیراعظم بننے اور وزیراعلیٰ بننے کی اجازت اٹھارویں ترمیم میں نہ دی جاتی۔ ملک کے آئین میں جو بھی ترمیم کی گئی ہیں وہ کسی کی ذات کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی ہیں۔ جنرل نقوی‘ جنرل معین حیدر کو اس میں یہ فائدہ نظر آیا کہ انہوں نے جو 2002ءکے پولیس ایکٹ 2001ءجو آئینی تحفظ دلوالیا جس سے ملکی نظام درہم برہم ہوگیا۔ 1973ءکا آئین ذوالفقار علی بھٹو نے بنوایا تھا وہ بھی چھوٹے صوبے سندھ کے باسی تھے لیکن چونکہ وہ کافی عرصہ منسٹر پاکستان حکومت کے رہ چکے تھے انکو تجربہ تھا کہ پاکستان کو قائم رکھنے کیلئے مرکز مضبوط ہونا چاہیے۔ سروس سٹرکچر میں تبدیلی کرنے کے باوجود اُن کو علم ہوگیا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی ضلع کے اتحادی ہونگے تو نظام صحیح چلے گا۔
سب سے پہلے 1973ءکا آئین جو متفقہ طور پر پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے پاس کیا اسکواسی حالت میں دوبارہ نافذ کردیا جائے جو ترامیم آئین میں 1973ءکے آئین میں کی گئیں ان کو کالعدم کردیا جائے۔ اٹھارویں ترمیم کو منسوخ کرکے 1973ءکا آئین بحال کیا جائے۔ 2001ءکا پولیس ایکٹ اور 2002ءکا لوکل باڈی ایکٹ منسوخ کرکے 1860ءکا پولیس ایکٹ اور 1957ءیا 1968ءکا لوکل باڈی ایکٹ رائج کیا جائے۔ پرانا ہوم سیکرٹری برائے اختیارات کیساتھ براجمان کیا جائے۔ ان معروضات پر عمل کرنے کے بعد بین الاقوامی حالات پر نظر دوڑائیں اس وقت امریکہ نے مسلمان ممالک کو تباہ کرنے کی جو پالیسی اختیار کی ہوئی ہے اس میں بھارت کو بھی شامل کیا ہوا اس پر توجہ دی جائے۔
بھارت نے بنگلہ دیش جوبنایا اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اندرا گاندھی نے بھارتی اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبودیا ہے۔ راہول گاندھی نے بھی اپنے بیانات کو تسلیم کیا۔ مودی نے بھی حال ہی میں بنگلہ دیش میں تقریر کی کہ ہم نے بنگلہ دیش بنا یا ہے ۔ اب مزید ہرزہ سرائی کی ہے کہ وہ بلوچستان‘ گلگت‘ صوابی کو بھی آزاد کردینگے۔ را کے ایجنٹ نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام Mission Rd.A.Wاور اُسکا مصنف RKYADAVہے اس میں اگر جائیں تو ایسٹ پاکستان کو کیسے بنگلہ دیش بنوایا گیا۔ مکتی باہنی کیسے ترتیب دی گئی۔ بنگلہ دیش کی کلکتہ میں حکومت کیسے بنائی گئی۔ تفصیل بیان کی گئی ہے کہ وہی طرز اب بلوچستان میں مکتی باہنی طرز کی تنظیم بنائے جانے کا امکان ہے۔ مینگل، مری اور بگتی قبائل سے یہ فرائض بلوچستان میں ادا کروانے کی تجویز ہوسکتی ہے اور کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین اور اسکے گماشتوں سے یہ فرائض انجام دلوانے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ ولی خان کا بیٹا بھی میدان میں آچکا ہے اس لئے حال ہی میں افغانستان کے متعلق بیان دیا ہے اور موجودہ حکمرانوں کی جانب سے اچکزئی بھی میدان میں آگیا ہے اور اس سے یہ ہرزہ سرائی کی ہے۔ مودی سرکار کا ناطقہ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کشمیر علی گیلانی صاحب اور اُنکے رفقا نے بند کیا ہوا ہے۔بھارتی فوج نے کرفیو لگا کر گولیوں سے 86 کشمیر ی شہید کردئیے ہیں۔ 600سے زائد افراد کے آنکھوں میں گولیاں ماری ہیں اور سینکڑوں کشمیری شہید کئے ہیں۔ اُتر پردیش میں ناگالینڈ ساﺅتھ انڈیا میں آزادی تحریکیں زوروشور سے چل رہی ہیں۔ اُن کو دبانے میں مودی سرکار بُری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ اور راہ داری رابطہ سڑکیں چین کیساتھ رابطے مودی کو اور ستا رہے ہیں۔ بھارت ان میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے بارڈر پر فائرنگ بھی کرا رہا ہے اور بلوچستان، کراچی، صوبہ سرحد میں صف بندیاں کرارہا ہے اور اپنے ایجنٹوں کو اسلحہ اور مال بھی سپلائی کررہا ہے ۔ بھارت نے بظاہر چین کا مقابلہ کرنے کیلئے اسلحہ امریکہ سے بھی خرید رہا ہے لیکن بھارت چین سے بھی پنگا لینے کی جرا¿ت نہیں کرے گا یہ سب سازوسامان پاکستان کیخلاف استعمال کیا جائیگا۔ امریکہ کیساتھ حالیہ معاہدہ میں بھارتی اڈے امریکہ استعمال کرسکے گا ۔ امریکہ بھارت سٹرٹیجک پارٹنر بن چکا ہے ۔
ہوسکتا ہے کہ کراچی کا محاصرہ بھی بری آبدوزوں سے کرے بھارت کا ایجنٹ کل بھوشن جو بہار ایرانی بندرگاہ سے گرفتار ہوا ہے اس نے بھارتی مداخلت بلوچستان اور کراچی کی تفصیلات بھی بتا دی ہیں۔ الطاف حسین نے جو ہرزہ سرائی کی ہے وہ بھارت امریکہ اور برطانیہ کی شہ پر ہی کی ہے۔ ہمارے دشمن پاکستان کو ملیامیٹ کرنے کی تجاویز تیار کر رہے ہیں اور ہم اس پر توجہ دے رہے ہیں کہ 2018ءکے بعد حکومت کس کی ہو اور افسوس اس وقت ملک میں ہر شخص کو پاکستانیت دکھانی چاہئے اور سب کو اکٹھے مل کر دشمن کے ارادہ کو بھانپتے ہوئے عسکری قیادت کے ساتھ کھڑے ہو کر دشمن سے مقابلہ کرنے کا سوچنا چاہئے۔ افغانستان کے لوگ تو مسلمان ہیں ہم نے ان کی جس قدر مدد کی ہے اور قربانیاں دی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب امریکہ‘ افغانستان اور بھارت افغانیوں کے فیصلے کریں گے۔ افغانستان کا صدر بھی پاکستان کے خلاف بیان دے رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں افغانی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں لیکن اس کے باوجود افغانستان کی حکومت بھارتی زبان بول رہی ہے۔ افغان مہاجر بھی تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ صد افسوس جب افغان مہاجروں کو افغانستان واپس بھیجنے کی بات کی جاتی ہے تو اسفند ولی خاں چیں بچیں ہو جاتے ہیں جب A.N.P کی سرحد میں حکومت تھی تو وہ خود افغانی مہاجروں سے نالاں تھے۔ اچکزئی جس کے بھائی کو گورنر بلوچستان بنایا ہوا ہے اور ان کے خاندان کو کافی مراعات بلوچستان میں ملی ہوئی ہیں۔ وہ بھی ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کے مرکز کو مضبوط ہونا چاہئے اور ان غداروں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرنا چاہئے‘جس کے وہ لائق ہیں۔
پاکستان نے اپنا دفاع Short Range میزائل بنا کر ناقابل تسخیر کر لیا تھا لیکن سنا ہے اب امریکہ نے بھارت کو اینٹی میزائل سسٹم دے کر اس کا توڑ ڈھونڈ لیا ہے۔ پاکستان کے سائنسدان بھی غافل نہیں جلد اس کا توڑ بھی ڈھونڈ لیں گے۔ بھارتی ائرفورس کے افسروں نے پاکستان کے متعلق ہرزہ سرائی کی ہے لیکن ہمارے جرنیل راحیل شریف نے حالیہ بیان جو دیا ہے کہ ہم دشمن کو ارادوں سے غافل نہیں کوئی غلط فہمہی میں نہ رہے۔ ہم ہر صورت مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ مودی سرکار کی تہبند ضرور ڈھیلی ہو گئی ہو گی۔ صد افسوس جب ہم نے ایٹم بم ابھی بنایا بھی نہیں تھا ضیا الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی میں راجیو گاندھی کو کہا تھا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے تو راجیو گاندھی نے جوکراچی پر حملہ کا پروگرام بنایا تھا وہ ارادہ ترک کر دیا تھا۔ اب تو ماشاءاللہ ہم ایٹمی قوت ہیں۔ اگر بھارت‘ امریکہ‘ برطانیہ کا ایک محاذ بن رہا ہے تو انشاءاللہ چین‘ روس‘ پاکستان‘ ایران بھی اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ تو تب کے نقشے بدلنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں پاکستان غافل نہیں۔ روس کے صدر نے بھی پاکستانی صدر کو کہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ امریکہ مسلمانوں کی تباہی کی سکیمیں بنا رہا ہے۔ چین اور روس کو بھی تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن پاکستان چین‘ روس‘ ایران بھی بے خبر نہیں ہے۔
لیکن بین الاقوامی ناخدا¶ں کو ہوش آنی چاہئے کہ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو دنیا کی تیسری جنگ ہو گی اور دنیا کی آبادی ایٹمی جنگ میں نیست و نابود ہو گی۔ پاکستانی سیاستدانوں سے التجا ہے کہ یہ آپس میں لڑنے جھگڑنے کا وقت نہیں دشمن للکار رہا ہے۔ سب کو یکجا ایک قوم ہو کر عسکری قیادت کے پیچھے کھڑے ہو کر ملک بچانے کی فکر کرنی چاہئے۔ ملک رہے گا تو ہر ایک کی باری آ جائے گی اگر ملک نہ رہا تو سب سیاستدان جیل میں ہوں گے۔ خدارا عقل کے ناخن لو ملک بچا¶‘ صرف توجہ ہٹا¶ کی پالیسی پر کاربند نہ ہوں۔
گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

مزیدخبریں