عالمی انضمام بڑی حد تک اطمینان بخش گلوبل سرمائے پر انحصار کرتا ہے۔ ترقی پذیر دنیا میں اس کی کمی ہے، ترقی پذیر ملکوں میں دستیاب سرمائے کو متوازن انداز میں انسانی سرمائے کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
دنیا میں انسانی سوجھ بوجھ اور دانش مندی کے بغیر صرف مالیاتی سرمائے کے بل بوتے پر معاشی فوائد اور ثمرات کا حصول ممکن نہیں اس کیلئے انسانی اور مالیاتی سرمائے کے ساتھ ساتھ علم و شعور اور آگاہی میں اضافہ کرنا ناگزیر ہے۔ تعلیم اور تربیت ہی اقتصادی اور فنی ترقی کے شعبے میں بہتر نتائج دیتی ہے۔ انسان کا سب سے بڑا شرف اور افتخار اس کے پاس علم کی دولت کا ہونا ہے اور اس کی دانشمندانہ اخلاقی بلندی عالمی انضمام کا ضروری بنیادی جز ہے۔
علم کا اشتراک
تاریخی طور پر علم کے بغیر اشتراک اورمینجمنٹ کی کوئی بھی کوشش کے خواہ وہ کسی بھی طریقے سے کی گئی ہو اس کے کبھی مفید اور فائدہ مند نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اس کے لئے اقتصادی اور سماجی رویے اور انسانی توقعات کا مقامی اقدار و روایات میں ضم ہونا ضروری ہے۔ آج ایک دنیا کرپشن کے باعث ہونے والے نقصان بارے زیادہ سے زیادہ تشویش میں مبتلا ہے اور یہ فکر اور تشویش ترقی یافتہ ملکوں کے بجائے ترقی پذیر ملکوں میں بھی اعلیٰ ترین سطح پر نہ صرف قرضے اور امداد دینے والے ملکوں اور کارپوریٹ سیکٹر میں بدرجہ اُتم موجود ہے۔ دانشمندانہ سالمیت کی کمی کا مظاہرہ عام ہے بعض مغربی ملکوں نے کک بیکس، کو قانونی قرار دے رکھا ہے اور اسے بالخصوص کم ترقی یافتہ ملکوں سے ہونے والے سودوں میں کوئی برائی نہیں سمجھا جاتا۔ کوئی اسے قبول کرے یا نہ کرے یہ کرپشن کی بنیادی وجہ ہے۔
دنیا میں کرپشن اور اخلاقیات کی کمی بارے احساس پختہ تر ہوتا جا رہا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ تدریسی اداروں نے اخلاقیات کو باقاعدہ ایک مضمون کی صورت میں اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کے لئے سوچنا شروع کر دیا ہے۔ Yaleیونیورسٹی نے باقاعدہ اپنے ہاں سیاسیات، فلاسفی اور اقتصادیات کے مضمون کے مقابلے میں اخلاقیات، سیاسیات اور اقتصادیات کا ایک نیا کورس شروع کر دیا ہے۔ جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی، ہارورڈ بزنس سکول نے اخلاقیات پر مطالعہ کو ایک مکمل مضمون کی شکل میں متعارف کرایا ہے۔ اخلاقیات کو صرف افراد تک محدود کرنے کے بجائے اس کا اطلاق حکومتی اور اجتماعی سطح پر ہونا چاہیے۔ یہ ترقی محض اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ سوشل پولیٹکل اور ثقافتی اقدار کے بغیر اقتصادی ترقی اب محض ایک خواب بنتی جا رہی ہے اس لئے اب اقتصادی ترقی کیلئے گڈ گورننس، ٹرانسپرینسی، آزادی اظہار اور معلومات کے آزادانہ بہاﺅ کرپشن کیخلاف جدوجہد کرنے کا جذبہ، ایک اعلیٰ تربیت یافتہ اور اچھی تنخواہ پانے والی سول سروس کی ضرورت جتنی ترقی پذیر دنیا میں ہے، اتنی ہی ضرورت اس کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی ہے۔
سرمائے کی پرواز
عالمی معیشت کے انضمام اور ترقی پذیر ملکوں کے زیادہ تر مسائل کئی ملکوں کی کرنسی سویپ کا شاخسانہ ہیں، یہ ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے سرمائے کی غیر ضروری پرواز کو روکنے کیلئے اس کی جڑیں گہری ہونی چاہئیں۔ تاہم اسے مقامی سرمایہ اور اس کے فوائد کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رہے عالمی انضمام نیا ہو یا پرانا یا خواہ آپ اسے کوئی نام دیدیں اس میں ریورس نے کبھی مثبت نتائج نہیں دیئے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سرمائے کی تحریک اتنی ناقابل اعتبار ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طویل مدتی سرمایہ مینجمنٹ فنڈ جو معروف ماہرین اقتصادیات اور نوبل انعام یافتہ عالمی مارکیٹ کے فنڈ مینجرز چلا رہے تھے وہ بھی دنیا کی اقتصادیات بالخصوص ابھرتی ہوئی معیشتوں کی فطری طاقت اور کمزوری کا بروقت ادراک کرنے میں ناکام رہے جن کی بنیاد پر تمام تر سرمایہ کاری کی گئی تھی اس طرح کے غیر معمولی واقعہ کی غیر موجودگی میں شاید جاپان میں بنک آف ٹوکیو کا مستوبشی بنک اور کئی دوسرے مالیاتی اداروں کا انضمام ممکن نہ ہوتا اور یوں جاپان میں دنیا کے سب سے بڑے بروکر ہاﺅس پرل پنحکو بھاری مالی نقصان اور خسارے کا سامنا نہ ہو گا۔
کرنسی کے بحران نے تمام ساﺅتھ ایسٹ ایشیاءکے ملکوں کو بری طرح متاثر کیا لیکن اگر ان کا سرمایہ فکسڈ اثاثوں کی شکل میں ہوتا تو یہ مقامی سرمائے کی طاقت میں اضافے کا سبب بنتے اور ان ملکوں کی اقتصادیات اس بحران کے منفی اثرات سے محفوظ رہتی۔ عالمی مالیاتی اداروں کیلئے اس طرح کے سرمائے کی پرواز کو روکنے کے علاوہ اس کی جانچ پڑتال اور اسے ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کو یہ بات یقینی بنانا چاہیے کہ اس طرح کی فنڈنگ یا فنڈ مینجمنٹ ترقی پذیر ملکوں میں بڑی محنت اور کوشش سے ہونے والی اقتصادی ترقی و خوشحالی کا خاتمہ اور صفایا کر کے کساد بازاری کا باعث نہ بن سکے۔ کرنسی کی قیمتوں میں کمی اور سرمائے کی پرواز کے کھیل کے قواعد واضح انداز میں مرتب ہوں، کسی ملک میں سرمائے کی موجودگی کو قائم و برقرار رکھنے کی مدت کا تعین یقینی بنانا ضروری ہے۔ اور مقامی معیشت کے ساتھ اس کی مطابقت کی تشریح کی جانی چاہیے اس طرح کا سرمایہ اور اس کی گردش اگر فنڈ مینجرز کی مرضی اور خواہشات کے تابع ہو گی تو یقینی بات ہے کہ اس سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور جس سے بالخصوص نسبتاً کم ترقی پذیر ملکوں کی معیشت متاثر ہو گی۔ اس کے نتیجے میں کسی بھی معیشت کی اقتصادی ترقی کیلئے سرمائے کا موثر استعمال مغرب ہو یا مشرق لاطینی امریکہ، روس یا ایشیاءکہیں بھی آسان اور ممکن نہیں ہوتا۔ اس کی پرواز کو دنیا میں کسی بھی جگہ صرف قدرتی معیشت کی نمو اور ترقی سے ہی روکنا ممکن ہے۔ (جاری)