اپنے لخت جگر کو نشہ کی لت سے بچانے کےلئے اس نے بڑے جتن کئے اپنے گھر والوں سے رقم تو وہ اپنی دوائی کےلئے لیتی تھی مگر جب اپنے لال کو نشہ کےلئے تڑپتا دیکھتی تو اپنی بیماری بھول جاتی اور سارا پیسہ اس کو نشہ کےلئے دے دیتی اور ساتھ ہی ساتھ تنبیہ بھی کرتی کے میرے لال تیرے نشہ سے اٹھنے والا دھواں حقیقت میں اس کی سانسوں کی ڈور ہے جوہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہورہی ہے اور اسکی وجہ صرف اور صرف اسکی حالت ہے۔ ماں کی آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر وہ روز وعدہ کرتا کہ ماں تیری قسم میں بہت جلد اس لت سے جان چھڑا لوں گا وہ اپنے نشہ کی رقم کےلئے ماں کو چکر دیتا رہا اور ماں اپنی ممتا کے ہاتھوں مجبور اس پر اعتبار کرتی رہی اگر اعتبار نہ بھی کرتی تو کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا اسکے پاس۔ دن گزرتے رہے مگر اس کا بیٹا تھا کہ نشہ کو کسی بھی صورت چھوڑنے پر راضی نہیں ہورہا تھا جس سے ماں کا جگر چھلنی چھلنی ہورہا تھا اور ایک روز طبیعت ناساز ہونے پر اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تو اس نے بتایا کہ ماں جی کو تو آخری درجے کی ٹی بی کا مرض لاحق ہے انکے پیٹ میں پانی بھر چکا ہے اور بیماری نے انکے اعضاءکو بہت متاثر کیا ہے۔ چند روز علاج کروانے کے بعد انہیں ہسپتال داخل کروا دیا گیا مگر جس کے لیے وہ اس حال میں پہنچی وہ ہسپتال بھی نہ پہنچا چند روز تک زندگی اور موت کی جنگ میں بالآخر موت جیت گئی اور وہ دل میں حسرت لیے جہاں سے رخصت ہو گئی کہ کب اس کا لال نشہ سے جان چھڑا لے گا۔ جس بیٹے کےلئے اس نے اتنی قربانی دی وہ اسکے جنازے تک میں شریک نہ ہوا کیونکہ ماں سے زیادہ اس کےلئے نشہ اہم تھا اس لئے ماں کو کندھا دینے کی بجائے اس نے نشہ کے سہارا اپنے سانس بڑھانے کی کوشش کی۔ لیکن قسمت نے اسکے ساتھ بھی یاوری نہ کی اور ماں کی وفات کے کچھ عرصہ بعد وہ بھی اس جہان فانی سے کوچ کرگیا۔ آج بھی نشہ تو مل رہا ہے مگر ڈھونڈنے سے بھی اسکی باقی اولاد کو ماں نہیں مل رہی جو ایک بیٹے کی خواہش پر قربان ہو گئی۔
کیا آج بھی ہم لوگ روزانہ چوکوں چوراہوں پر کئی ما¶ں کے بیٹوں کو بے سدھ حالت میں نہیں دیکھتے؟ کیا انکی موجودگی ہمارے حکمرانوں اور معاشرے کےلئے سوالیہ نشان نہیں ہے؟ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت اسی لاکھ لوگ نشہ کے عادی ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان میں روزانہ سات سو اور سالانہ اڑھائی لاکھ کے قریب افراد نشہ کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
پنجاب حکومت کی طرف سے ماڈل قبرستان بنانے کےلئے تو کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں جو کہ ایک احسن اقدام ہے کیونکہ جس طریقہ سے ہمارے ہاں قبرستانوں میں سہولیات کی دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اسی طرح نشہ کے عادی افراد جو ''زندہ لاشیں'' بن چکے ہیں انکو بچانے کےلئے اقدامات کرنا بھی ناگزید ہیں مگر افسوس کہ ان کی بحالی کے حوالے سے کسی بھی سکیم کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آرہا۔ تعلیمی اداروں، چوکوں چوراہوں اور مارکیٹس کے باہر موجود ان ''زندہ لاشوں'' کی وجہ سے طلباءمتعدد قسم کے سوالات کرتے ہیں جس سے ان پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بہت سارے لوگ بھی نامسائد حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے نشہ کے عادی افراد سے رجوع کرتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔ ویسے تو پولیس، اینٹی نارکوٹکس اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمہ جات معاشرے میں نشہ جیسی لعنت پھیلانے والے عناصر کےخلاف 'برسرپیکار'ہیں مگر حالات گواہی دے رہے ہیں کہ وہ کس حد تک اس مافیا کو قابو کرنے میں کامیاب ہیں۔نشہ کرنےوالے کی حالت دیکھ کر اسکے گھر والے روز جیتے اور مرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے ایک صحت مند انسان کو موت کے منہ میں جانے کا کرب کیا ہوتا ہے وہ ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا لیکن چشم کشا حقائق کے باوجود کہیں بھی حکومتی سرپرستی میں کوئی ادارہ نہیں ہے جو نشہ کے عادی افراد کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقل بنیادوں پر ان کی بحالی کا کام کر رہا ہو۔ ہمیں اس بات کی مکمل ریسرچ کی ضرورت ہے کہ نشہ جیسی لعنت ہمارے معاشرے میں کیوں پھیل رہی ہے اور اس کےلئے کونسے اقدامات جنگی بنیادوں پر کرنا ہوں گے۔ سنا ہے کہ کے پی کے میں تو قبرستان بچا¶ تحریک شروع ہو چکی ہے لیکن انسان کو بچانے کی تحریک کون شروع کرےگا کیا تبدیلی کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف بھی نشہ کے عادی افراد کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کےلئے اقدامات اٹھانے سے عاری ہے کیا انہیں بھی انسان سے زیادہ ووٹوں کی ضرورت ہے۔ ویسے تو ممبران اسمبلی اپنے حلقوں کی ''ترقی'' کےلئے باقاعدہ طور پر کروڑوں روپے کی سکیمیں بنا کر حکومت کو بھجواتے ہیں تاکہ مطلوبہ فنڈز کے حصول کے بعد لوگوں کی بھلائی کےلئے عملی کاموں کا آغاز کیا جاسکے کیا انکے علاقوں میں موجود زندہ لاشوں پر ان کی نظر نہیں پڑتی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پورے ملک میں سروے کروائے اور مطلوبہ تعداد کے حوالے سے شہروں میں نشہ کے عادی افراد کی بحالی کےلئے سنٹر بنائے جائیں اور ایسے سنٹرز پر الگ سے رقم خرچ کرنے کی بجائے پہلے سے موجود ہسپتالوں میں ان کےلئے جگہ مخصوص کرکے مستقل بنیادوں پر بحالی کے عمل کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ اقتدار کی خاطر تو سیاسی لوگوں نے تو اپنے حریفوں اور انکے خاندانوں تک کی نجی زندگیوں پر خوب 'روشنی' ڈال رہے ہیں لیکن ہماری نسل کی رگوں میں زہر اتارنے والا مافیا کیوں ابھی تک بے نقاب نہیں ہوسکا۔ کیا یہ مافیا ریاستی اداروں سے بھی زیادہ مضبوط ہے؟ وہی معاشرے زندہ و جاوید کہلاتے ہیں جو انسانوں پر خرچ کریںکیا ابھی بھی ہمیں انتظار ہے کہ اپنے بچوں کے نشہ کی لت پوری کرنے کیلئے مزید مائیں قربانی دیں؟
کیا زندگی کی بہاریں چھوڑ کر موت کی طرف رخت سفر باندھنے والے انسانوں کیلئے حکومت بیرونی امداد کی منتظر ہے یا ماڈل قبرستانوں کے پراجیکٹس مکمل ہونے کی؟ دنیا کی کوئی شخصیت ماں کی ممتا اور اسکی قربانیوں سے نہ تو انکار کرسکتی ہے اور نہ ہی آج تک اس کا کوئی نعم البدل سامنے لاسکی ہے مگر ان زندہ لاشوں کی زندگیاں بچانے کیلئے کس کا انتظار ہے؟