جس حکومت کا اپنے ملک کے40"فیصد" علاقے پر کنٹرول نہیں۔ مزیدبراں اکثریتی دہشت گرد تنظیموں کی سر پرست ہو۔ وہ کِس مُنہ سے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہر ا رہے ہیں۔ "پاور پروکرز" قطعی طور پر لا تعلقی۔ غفلت برت رہے ہیں۔ "برکس اعلامیہ" اِسی رویے کا عکاس تھا۔ انڈیا۔ افغانستان وہ ہمسائے ہیں جو جی بھر کر دل۔ دماغ میں ہمارے متعلق بغض۔ کینہ سجائے بیٹھے ہیں۔ ساری دنیا میں خود تراشیدہ زہریلی پُڑیاں بیچنے میں مگن۔ خود ساختہ دشمنی کی جڑیں رکھنے والے۔ یہ کبھی بھی ہم سے راضی۔ خوش نہیں ہونگے۔ "ایک" کی سلامتی کی جنگ ہم نے خود لڑی۔ "دوسرا" اُس کے کندھے پر ہمارے خلاف محاذ کھولے بیٹھا ہے۔ مگر اِن کی دال نہیں گلنے والی۔ ایک سانس میں "مغربی سرحد" والے پاکستان۔ طالبان سے جامع مذاکرات کا اعلان کرتے ہیں ساتھ ہی سانس اُکھڑ جاتی ہے۔ کیونکہ عداوت۔ رنجش کی کوئی بنیاد نہیں رکھتے سوائے دماغی فتور کے۔ اور اِس طرف والے "سرپرست" کی ہلہ شیری کے۔مزید آگے بڑھتے ہیں۔ اپنے عالمی مربی جو ہمارا "دیرنیہ اتحادی" ہے۔ "اتحادی" صرف اپنے مفادات کے تحفظ کا۔ ایک جارحانہ دھمکی اُس کی طرف سے آئی۔ اُس دھمکی نے سب کو متحد کر دیا۔ حکومت +اپوزیشن نے بیک آواز الزامات مسترد کر کے زمینی و فضائی راہداری بند کرنے کا مطالبہ کر دیا بلکہ امریکی وزیر کی میزبانی سے انکار اچھا پیغام تھا۔ اب دیکھیئے دخل اندازی کون کرتا ہے۔ افغانستان طالبان کا گھر ہے۔ جائے پیدائش ہے۔ وہ ملک جو ہزاروں میل دور سے یہاں آکر بیٹھا ہے کیا وہ "درانداز" نہیں؟ کیا درست نہیں کہ وہ "جبری قبضہ" کی غلط جنگ لڑ رہا ہے۔ روشن نتائج کے باوجود مزید رُکنے۔ توسیع کرنے پر بضد ہے۔ کیا غلط ہو گا کہنا کہ وہ مقبوضہ علاقے کو دہشت گردوں سے پہلے پاک تو کرے۔ اِن کے سر پرستوں کو نکیل ڈالے جو امن تباہ کرنے کے ایجنڈہ پر کاربند ہیں۔ ایسا کرے گا تو امن ممکن ہو گا۔اِس سے پہلے "انڈین آرمی چیف" کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکی آ چکی تھی۔ چند کوس کا فاصلہ تو سنبھالا نہیں گیا۔ خوب اکڑے۔ گرج برس کر دورے کئے۔ بیانات کا بارود الگ سے برسایا۔ دو ماہ کے بعد گھٹنے ٹیک دئیے۔ "ڈوکلام" سے یکطرفہ واپسی۔ ایک کے بعد ایک پسپائی۔ بڑھک بازی کی یکطرفہ واپسی۔ دھمکی کے بعد منظر سے غائب۔ ہاں مگر اشتعال انگیزی کا نہ رُکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بھی ایک دن رُک جائے گا کیونکہ جس "فوج" کے بل بوتے پر شرارتیں پلان کی جاتی ہیں اُس کی پتلی حالت۔ کمتر معیار اور نا انصافی کی ہزاروں مثالیں ریکارڈ پر ہیں۔ افسران میں تکبر۔ گھمنڈ اتنا کہ یوم آزادی پر ذراسی غلطی پر فوجی انسٹرکٹر نے "کیڈٹس" کو اُلٹا لٹا کر بیلٹ سے مارا۔
زندہ فوجیوں سے بدسلوکی کی سینکڑوں شکایات کے علاوہ "ہلاک شدگان" بھی نا انصافی۔ فنڈز کی کمی جیسے مسائل بھگت رہے ہیں۔ ایک ہلاک "شدہ کیپٹن" کی والدہ پھٹ پڑی کہ فوج کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ پہاڑوں پر پہننے والے جوتے خرید سکے نہ ہی دینے کے لیے وردی ہے۔ جن کو نوکری نہیں ملتی وہی لوگ فوج میں آرہے ہیں۔ وسائل نہ ہونے کی بات تو دل کو نہیں لگتی ہاںمصرف ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی ہے۔ "لالہ جی" چلانے والے ہاتھ بھی تو ضروری ہیں۔ مجبوری کے تحت آنے والے کیا جذبہ دِکھا پائیں گے جبکہ اِس طرف جذبہ ہی جذبہ ہے۔ جوش ولولہ۔ دل کے ساتھ لوگ جوائن کرتے ہیں۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر نہیں بلکہ "پہلی ترجیح" کے طور پر۔ میدان اعمال سے سجتے ہیں۔ کارزار جوش سے گرم ہوتے ہیں خالی دھمکیوں سے نہیں۔
بے حد کامیاب مثال "شمالی کوریا "۔ آگ اور خون کے میدان سجانے۔ ایٹمی حملہ کی دھمکی۔ سبھی کچھ۔ "ہائیڈروجن تجربہ" میں پگھل گیا۔ انسان کے بغیر اسلحہ بیکار ہے۔ ارادہ۔ نیت کے بغیر امن محال۔ یقینا اچھا فعل نہیں۔ دھمکیاں رُکنے تک تجربات کرنے کا اعلان کشیدگی بڑھا رہا ہے۔ مختلف ممالک پر پابندیوں کی ناکام طویل ترین تاریخ رکھنے کے باوجود "امریکہ" مزید پابندیوں پر مُصر ہے۔ جبکہ "روسی صدر" کا سفارتی حل پر اصرار وقت کا تقاضا ہے۔ حالات ایک بدترین عالمی آفت کے نزول کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اسلئے "قیادت" پر ذِمہ داری کا بوجھ بڑھ چکا ہے کہ وہ سمجھداری۔ متانت۔ تحمل کا مظاہرہ کرے۔ ہر طرف تپش ہے۔ تنازعات کی راکھ اُڑ رہی ہے۔ جب وسائل کا کثیر حصہ فوجی سازوسامان کی خرید پر صرف ہوگا تو معیشت کیسے ترقی کرے گی۔ خود انڈیا کے اندر بھوک۔ ننگ انتہا کو چھو رہی ہے۔ یقینا واقعات ہزاروں ہونگے مگر ہم تو تازہ ترین خبر دیکھ رہے ہیں۔ دھمکی کے شاید ایک۔ دو ہفتہ بعد کی خبر۔ بھارتی شہر "چترکوٹ" میں بھوک سے تنگ ماں نے 4 بچوں سمیت خودکشی کر لی۔ پورا کنبہ دو دن تک فاقے سہتا رہا۔ شوہر کو نہ نوکری ملی نہ آٹا۔ چاول۔ "روشن انڈیا کی تاریک کہانی"۔
ہمسایہ سرحد جُڑا ہے یا ہزار میل دور دوست۔ ممالک کے مابین برابری کی سطح پر استوار تعلقات پائیدار ہوتے ہیں۔ حقائق سے فرار تنا¶ کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ وہاں برتری کا احساس۔ رویہ عدم تحفظ۔ شکوک پھیلاتا ہے۔ "چین" ہمارا ازلی دوست ہے۔ "برکس اعلامیہ" میں اتحادی والا کردار دل کو نہیں بھایا۔ خود چینی ماہرین اتنی بڑی سفارتی غلطی پر حیران۔ پریشان۔ تلافی کرنے کی تجاویز دیتے نظر آئے۔ سوچنا چاہیے آیا "سفارتی ناکامی ہے یا فنی غلطی" یا پھر کہیں ہمارے لیے ہلکی سی وارننگ۔
”بڑھک بازی -یکطرفہ واپسی“
Sep 08, 2017