6 ستمبر 1965ءپاکستان کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک جن حالات سے وطن عزیز کو واسطہ پڑا ہے ان کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو 1965ءکی جنگ کا پس منظر اور پوری قوم کا اپنی بہادر فوج کے ساتھ ملکر بھارتی فوج کے عزائم کو 17 دن میں خاک میں ملا دینا بہت سے سبق دیتا ہے جو آج بھی وطن عزیز کیلئے مشعل راہ کا کام دے سکتے ہیں۔ بھارت نے شہر لاہور کو فتح کرنے کا خواب دیکھا تھا جسے چکنا چور کر دیا گیا۔ پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ مل کر ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع مناتے ہوئے اپنے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ چنانچہ اس سال بھی لاہور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل صادق علی (ہلال امتیاز ملٹری) نے 6 ستمبر 2017ءبروز بدھ وار کو لاہور چھاﺅنی میں اس تاریخی موقع کی مناسبت سے دو شاندار تقاریب منعقد کرنے کا اہتمام کیا۔ پہلی تقریب صبح ساڑھے نو بجے فوٹریس سٹیڈیم لاہور میں منعقد ہوئی اور دوسری تقریب کا اہتمام یادگار شہداءپر شام ساڑھے چھ بجے ہوا جس میں شہداءکی یاد میں عقیدت کے پھول پیش کرتے ہوئے وطن عزیز کی خاطر ان کی قربانیوں کو سراہا گیا۔ فوٹریس سٹیڈیم میں تقریبات کا وقت مقررہ پر آغاز کرنے سے پہلے لیفٹیننٹ جنرل صادق علی نے اپنے رفقاءلاہور گریژن کے کمانڈروں کی معیت میں 1965ءکی جنگ کے شہداءکی یادگاروں پر جا کر خراج عقیدت پیش کیا جب وہ فوٹریس سٹیڈیم میں پہنچے تو ہزاروں کی تعداد میں زندہ دلان لاہور جن میں پورا سٹیڈیم موسم کی گرمی اور حبس کے باوجود بچوں نوجوانوں اور بزرگوں کے علاوہ خواتین و حضرات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لاہور کے شہریوں اور معزز شخصیات نے جن میں سول اور ملٹری کے افراد شامل تھے۔ پرجوش تالیوں کی گونج میں جنرل صادق علی کا استقبال کیا اور تلاوت قرآن مجید کے بعد تقرےباً 3 گھنٹے کے بھرپور پروگرام کا آغاز ہوا۔ جن میں جنگی مہارت دہشتگردوں کےخلاف کامیاب کارروائیوں کی DEMONSTRATION کے علاوہ نہایت خوبصورت ملٹری بینڈ اور پائپ بینڈ ڈسپلے نیزہ بازی کا مختلف ٹیموں کی طرف سے کرشماتی مظاہرہ نے عجیب جوش اور ولولہ کا پورے سٹیڈیم میں سماں پیدا کر دیا۔ شہر لاہور اور دیگر پنجاب کے مختلف حصوں سے آئی ہوتی ٹیموں نے قومی ترانوں کے دلکش گیت پیش کر کے حاضرین کے دلوں میں عجیب کیفیت پیدا کی۔ تقریب کا سب سے اہم حصہ کمانڈر 4 کور لیفٹیننٹ جنرل صادق علی کا ہزاروں کی تعداد میں موجود زندہ دلان لاہور سے خطاب تھا۔ حاضرین کا اس موقع پر تمام تقریب کے دوران جوش و خروش اور ولولہ کے ساتھ ساتھ ڈسپلن انتہائی قابل تعریف اور مثالی تھا۔ شاید اس میں تمام متعلقہ منتظمین کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کو بھی پوری طرح بروئے کار لانے کا بڑا عمل دخل تھا۔ جس کیلئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ جنرل صاحب نے اپنے خطاب میں 1965ءکی جنگ کی بنیادی وجہ اور مرکزی حیثیت پوری قوم کے بے مثال اتحاد اور فوج کے ساتھ یکجہتی کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ رات کے اندھیرے میں بھارتی فوج کے بزدلانہ حملے نے پوری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا دیا جس کے سامنے ہر محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے ہو گئے اور بھارتی فوج کا کمانڈر انچیف لاہور کے جمخانہ کلب میں اپنی فتح کا جشن منانے میں ناکام و نامراد رہا۔ جنرل صادق علی نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی تقریر کا حوالہ دیا کہ بھارت کو پاکستان پر حملہ کرتے وقت یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔ اس قوم کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ سمندر ہو یا پہاڑ ایک ٹھوکر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ افواج پاکستان نے جس طرح ماضی میں قوم کی امنگوں پر پورا ہو کر دکھایا ہے انشاءاللہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں آئندہ بھی قوم کی امیدوں پر پورا اترنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرینگے۔
راقم چونکہ 1965ءکی جنگ میں لاہور کے دفاع میں برکی سیکٹر بطور بٹالین کمانڈر 12 پنجاب رجمنٹ شریک تھا اس لئے لاہور کے دفاع میں فوجی کارروائیوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے کردار پر بھی دوچار باتیں اپنے ذاتی مشاہدے کے حوالے سے پیش کرنا چاہوں گا۔ 10 ڈویژن رجمنٹ لاہور کے دفاع کا ذمہ دار تھا۔ اسکے کمانڈر اس وقت میجر جنرل سرفراز خان تھے انہوں نے 1939ءمیں 14پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں انہوں نے ملٹری کراس کا ا عزاز حاصل کیا تھا۔ پاکستان میں انہوں نے 3 آرمڈ بریگیڈ اور 1 آرمڈ ڈویژن کی کمان کا تجربہ رکھتے تھے۔ انہوں نے 1965ءکے ابتداءمیں 10 ڈویژن لاہور کی کمانڈ سنبھالی تھی۔ 1965ءکی جنگ میں 10 ڈویژن کو 60 ہزار گز لمبے محاذ کا راوی کے شمال سے لیکر بیدیاں تک جنوب میں دفاع کرنا تھا۔ 1965ءکی لڑائی کے وقت 10 ڈویژن میں مندرجہ ذیل فوجی دستے شامل تھے۔
٭ 22بریگیڈ‘ کمانڈر بریگیڈر قیوم شیر 15 بلوچ‘ 18 بلوچ 23 کیولری اور 22 فیلڈ رجمنٹ توپ خانہ۔ ٭103 بریگیڈ کمانڈر بریگیڈئر اصغر ٹروپس ا نڈر کمانڈر 12 پنجاب لیفٹیننٹ کرنل اکرام اللہ‘ 17 پنجاب لیفٹیننٹ کرنل اسماعیل قریشی۔٭114 بریگیڈ کمانڈر بریگیڈئر آفتاب احمد‘ 3 بلوچ رجمنٹ 11 بلوچ رجمنٹ 16 پنجاب رجمنٹ 23 فیلڈ رجمنٹ توپ خانہ۔٭10 ڈویژن آرٹلری کمانڈر بریگیڈئر جمل اختر عزیز 22 فیلڈ رجمنٹ‘ 23 فیلڈ رجمنٹ 24 فیلڈ رجمنٹ 9 میڈیم رجمنٹ 30 ہیوی رجمنٹ 4 انجینئر رجمنٹ 16 سگنل رجمنٹ۔
لڑائی کے پہلے دن 10 ڈویژن کے مقابلے پر 2 عدد انڈین ڈویژن 2 آرمڈ رجمنٹ 3 بریگیڈ 10 بریگیڈ آرٹلری حملہ آور تھے۔ بھارتی فوج مجموعی طور پر دوگنا سے زیادہ زمینی اور 3 گنا زیادہ ہوائی برتری رکھنے کے باوجود چند میل ایڈوانس کرنے کے بعد بی آر بی نہر کو پار نہ کر پائی بلکہ بری طرح ناکام ہوئی اور 17 دن کی لڑائی کے بعد تاشقند (سویت یونین) کی وساطت سے جنگ بندی پر 1965ءکی جنگ ختم ہوئی اور بھارتی وزیراعظم شاشتری تاشقند میں ہی حرکت قلب بند ہونے سے فوت ہو گیا۔ 6 ستمبر سے لیکر 23 ستمبر تک 17 دن رات لاہور کی سول آبادی اپنی افواج کی پشت پناہی پر 24 گھنٹے کمربستہ رہی۔ جس کی درجنوں مثالیں شہری آبادی کی بھرپور امداد اور تعاون کا روشن ثبوت ہے۔ جب بھی موقع ملے گا قارئین ”نوائے وقت“ کو ان کی تفصیلات سے آگاہ کرتا رہوں گا۔ پاک فوج زندہ باد۔ پاکستان زندہ باد