امریکی الزامات کا شافی جواب

"پاکستان نے بہت کرلیا، اب دنیا (More Do) ڈومور کرے"جنرل قمر جاوید باجوہ لغو اور بے بنیاد امریکی الزامات کا جواب دے رہے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عالمی طاقتیں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ہمیں نہ ٹھہرائیں، اس کیساتھ ساتھ خبردار بھی کیا کہ اگر پاکستان ناکام ہوا تو سارا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائیگا۔ ٹرمپ کے الزامات کے جواب میں یہ واضح موقف سب دریدہ دہن دشمنوں کے منہ بند کرنے کیلئے کافی ہے، سنجیدہ فکر امریکہ تجزیہ نگار پاکستان کے خلاف صدر ٹرمپ کی یاوہ گوئی کو ازخود مسترد کرچکے ہیں اور اس لاف گزاف کو امریکی مفادات کیلئے زہر قاتل قرار دے رہے ہیں۔ عالمی منظر نامے میں بعض تبدیلیوں کو مستقبل کے حوالے سے نہایت اہم قرار دے رہے ہیں۔ ستمبر گیارہ کے پراسرار حملوں کے بعد سے امریکہ نے چین، روس، ترکی اور ایران کو علاقائی قیام امن کے عمل سے نکال باہر کیا ہے۔ اس وقت حقائق پر نظررکھنے والوں کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ امریکہ کو افغانستان میں امن کے اہداف حاصل کرنے کیلئے کاروباری مفادات کو ترک کرنا ہوگا۔ نفع کمانے کی ہوس اور امن کے قیام کے دعوے دو مختلف اہداف ہیں جن کے حصول کیلئے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے تحت ایشیا کے مسلم اکثریتی علاقوں میں فتنہ و فساد برپا کرکے نفرتوں کے الاؤ دھکائے گئے کئی ہنستے بستے ممالک کومیدان جنگ بنا دیا گیا۔ امریکہ نے ان گھناؤنے مقاصد کے حصول کیلئے چارج شیٹ تیار کی گئیں ’’عراق کو تباہ کرنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا جواز تخلیق کیاگیا۔ ایران پر جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگایا جا رہا ہے جیسے ماضی میں ویتنام پرحملے کیلئے کمیونسٹ حکومت کی حمایت کا الزام گھڑاگیاتھا آج شمالی کوریا پر میزائل سازی کا الزام ہے۔ لیبیا داعش پالنے کے سزاوار تھا تو مصرکی جمہوری حکومت پرامریکہ مخالف جذبات ابھارنے کا غصہ اتارا گیا۔ یمن کو سعودی مخالف جذبات ابھارنے کی سزا مل رہی ہے۔ چین نشانہ پر ہے کیونکہ وہ دنیا میں عالمی اقتصادی غلبہ پا رہا ہے۔ کیوبا سے ناراضگی اس لئے ہے کہ سوشلسٹ ایجنڈے پر کیوں عمل پیرا ہے۔ وینزویلا کی یہ جرأت کہ امریکہ کیخلاف کھڑا ہو۔‘‘ دنیا کو ’مسائل کا جہنم ‘ بنانے والے امریکہ کی گھناؤنی خواہشات کچھ اس طرح ہیں ’’ دنیا پر ان کا راج رہے۔ ان مقاصد کیلئے سی آئی اے جیسا خون آشام ادارہ پال رکھا ہے جو دنیا بھر میں حقیقی جمہوری حکومتوں کے تختے الٹ کر اپنی مرضی کی جمہوریت گری کا ہنر استعمال کرتا ہے۔ منشیات کی کالی کمائی کو پروان چڑھانا اثاثوں کا تحفظ کہلاتا ہے۔ دنیا کے 98 سے زائد ممالک میں فوجی اڈے کھول رکھے ہیں۔ اپنی شمالی ریاستوں میں احساس برتری کے موذی مرض میں مبتلا سفید فام کی سرپرستی جاری ہے۔ ریاست ٹیکساس سے کنٹکی تک ایسے دہشت گرد گروہ آزاد اور بیمار دندنا رہے ہیں جو امریکی سر زمیں پر پناہ لینے والوں کا شکار کر رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی فوج پالی جا رہی ہے جو دوسرے ممالک میں گُھس کر وہاں بے گناہ اور نہتے لوگوں کا خون بہاتی ہے۔ایسی معیشت کاری کی جاری ہے جس کا مقصد دیگر ممالک کی معیشتوں کا بیڑہ غرق کرنا ہے۔ تباہی وبربادی کرنیوالے جوہری ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ کسی اور نہیں خود امریکیوں کے پاس ہے۔ سینٹ اور کانگریس کا حقہ پانی چالو ہے جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے والی ’ لابی فرموں‘ سے انتخابی مہم کے چندے کے نام پر پیسے بٹورتے اور فیصلہ سازی کو فروخت کرتے ہیں۔ ایک ایسے مالیاتی نظام کو پروان چڑھارہا ہے جو 16کھرب ڈالر قرض لیتا ہے، اس میں زیادہ تر غیرملکیوں سے لیاگیا قرض شامل ہے، جسے قرض دینے والوں پر حملوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ المیوں کی ماں تو یہ ہے کہ امریکہ ’بغل میں چھری، منہ میں رام رام ‘ کی چلتی پھرتی مثال ہے۔دنیا کے غموں کی وجہ خود ہیں لیکن ادائیں یوں دکھاتے ہیں کہ انہیں ساری دنیا کا غم کھائے جارہا ہے۔ ساہیوال کے بشیر احمد بشیر کے بقول …؎
جا'جا کے اس سے مانگتے ہیں زندگی کی بھیک
جس نے کسی کو چین سے مرنے نہیں دیا
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ امریکہ تب جان چھوڑتا ہے جب تباہی اور بربادی کے دیوتا اپنا کام مکمل کرکے چاروں جہنم کے دروازے کھول دیتے ہیں اور شمالی ویتنام کے دارالحکومت سائیگون کا منظر تازہ نہ ہوجائے۔ امریکی سفارت خانہ کی چھت پرموجود ہیلی کاپٹر سے رسی جھول رہی ہو اور اسکے ساتھ امریکی سپاہی لٹکا ہوا جارہا ہو۔گزشتہ 30 برس میں امریکہ نے ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلیکن ، دونوں کے ادوار میں دنیا پر13 جنگیں مسلط کیں۔ سو سے زائد ممالک میں فوجی مداخلت کی گئی۔ 14 ٹریلین ڈالر اس مہم جوئی پر پھونک دئیے گئے ایک ٹریلین ڈالر سے زائد تو صرف افغانستان میں خرچ ہوئے اور 30 لاکھ بیگناہ مارے گئے۔ بیس لاکھ افغانستان میں اور دس لاکھ ہلاکتیں عراق میں ہوئیں۔ امریکیوں کی اپنی ہلاکتیں سات ہزار تھیں۔ یعنی ایک اور چارسو کی شرح بنتی ہے۔ ان اعدادوشمار پر غور کریں اور سوچیں کیا امریکہ جیسا ملک افغانستان ایسے ہی چھوڑدیگا؟
امریکہ پوری دنیا میں جنگیں کیوں بھڑکاتا ہے؟ فوجی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کا سب سے طاقتور ادارہ ہے جو پینٹاگون دنیا میں امریکی اقتصادی غلبہ کو قومی مفاد تصور کرتا ہے۔ امریکہ کا اپنی فوج پر خرچ امیر ترین دس ممالک کے کل بجٹ کے برابرہے۔ 2018ئکا امریکی فوجی بجٹ652 ارب ڈالر اوردس ممالک کامشترکہ فوجی بجٹ660 ارب ڈالر ریکارڈ کیاگیا۔ امریکہ 652 ارب ڈالر فوج پر خرچ کرتا ہے۔ اس مد میں سابقہ معذور اور زخمی ہونے والے فوجیوں (ویٹرنز)، سول ڈیفنس اور فوجی امداد کو بھی شامل کرلیں تویہ رقم بڑھ کر 885 ارب ڈالر ہوجاتی ہے۔ چین 215ارب ڈالر، روس 69 ارب ڈالر، سعودی عرب 64ارب ڈالر، بھارت 56 ارب ڈالر، فرانس 56 ارب ڈالر، برطانیہ 48 ارب ڈالر، جاپان 46 ارب ڈالر، جرمنی 41 ارب ڈالر، شمالی کوریا 37 ارب ڈالر، اٹلی28 ارب ڈالرخرچ کرتا ہے۔ پاکستان کا 2017ء دفاعی بجٹ نوارب ڈالر ہے۔ دنیا بھر میں فوجی اخراجات کا سالانہ تخمینہ 1ئ7 ٹریلین ڈالر ہے اور اس میں پچاس فیصد فوجی اخراجات امریکہ کرتا ہے۔1941ء میں پرل ہاربر پر حملہ کے بعد سے گزشتہ 80 سال سے امریکہ بلاتعطل جنگ وجدل میں ہے۔ کرہ ارض پر امریکی ہی اس وقت سب سے بڑی، طاقتوراور پرتشدد جنگ کرنے والی قوم کے طور پر جانے مانے جاتے ہے۔ یہ وہی وحشی قوم ہے جس کا پاکستان اور افغانستان' خطے میں حریف ہیں لیکن خوش کن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے کوریا میں شکست کھائی، ویتنام، لبنان، افغانستان اور عراق میں مارکھائی۔ آپ دنیا کی سب سے بڑی فوجی مشینری کے مالک ہو سکتے ہیں، فضائ، زمین اور سمندر میں جدید ترین مہلک ہتھیاروں پر دسترس رکھ سکتے ہیں لیکن مادر وطن کے دفاع کا جذبہ رکھنے والی پرعزم قوم کو شکست دینا ریاضی کا سوال نہیں۔ ملک کو بم سے اڑا سکتے ہیں لیکن ان کا نظریہ ، جذبہ حریت اور وطن کے دفاع کیلئے کٹ مرنے کی سوچ ختم کرنے کا کوئی نسخہ کارگر نہیں ہوتا جو افغان کے پاس ہے۔ اور امریکہ کو اس بات کی سمجھ ہے۔ ٹرمپ جب کہتا ہے کہ ہم قوم کی تعمیر نہیں دہشتگردوں کا صفایا کرنے آئے ہیں تو وہ جانتا ہے کہ سولہ سال میں ایک لاکھ تیس ہزار امریکی فوجی دستے ایسا نہ کرپائے۔ وائٹ ہائوس کے سابق اعلٰی حکمت کارسٹیو بینن کے مطابق امریکہ کے دنیا میں عالمی غلبہ برقرار رکھنے کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ چین ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ اگر امریکہ نے چین کو نہ روکا تو آئندہ دس سے پندرہ سال میں چین دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہوگا۔ امریکہ سے کہیں آگے۔فوجی لحاظ سے بھی۔ گزشتہ دس سال سے اگرچہ نسبتا امریکی فوجی اخراجات چھ سو سے ساڑھے چھ سو ارب ڈالر کے دائرے میں رہے ہیں۔ 2009 سے2012ء میں سات سو ارب ڈالر تک اضافہ ہوا ہے۔ چین نے اپنے فوجی بجٹ کو ایک سو ارب ڈالر سے دو سو پندرہ ارب ڈالر کردیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک امریکی خواہش کا جواب ون بیلٹ ون روڈم کا منصوبہ ہے۔اسکے تحت ایشیائ، مشرق وسطی، افریقہ اور یورپ کے 64 ممالک پر اندازہ پانچ ٹریلین ڈالر خرچ ہوگا۔ امریکی بے خوابی کی اصل وجہ یہ ہے۔ اوبور کے تین بڑے منصوبہ جات میں سے ایک چین پاکستان اقتصادی راہداری کا 46ارب ڈالر کا جزو ہے۔ تین ہزار کلومیٹر ہائی سپیڈ ریلوے سے چین اور سنگا پور باہم منسلک ہوجائینگے اور وسطی ایشیاء تک گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ تیسرا جزو ہے۔ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی سے یہ بہترین موقع اور بہانہ میسرآجاتا ہے کہ اس منصوبہ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہیں۔ افغانستان میں امن کیسے گوارا ہو سکتا ہے جب یہ سادہ سی حقیقت ہمارے سامنے ہو کہ افغانستان کو اوبور اور سی پیک کی توسیع میں حصہ دار بننا ہی ہوگا۔ امریکی جانتے ہیں کہ طالبان نے غیرمشروط افغان مفاہمتی عمل میں شرکت پر آمادگی ظاہر کردی ہے جس میں ڈاکٹر اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کو تسلیم کرنا بھی شامل ہے۔ وہ ہتھیار پھینکنے، غیرجانبدارانہ، شفاف انتخابات کیلئے بھی آمادہ بہ رضا ہیں لیکن ان کا صرف ایک ہی اصرار ہے کہ امریکی افغانستان سے چلے جائیں۔ پاکستان، چین، ایران، روس پرامن افغانستان چاہتے ہیں ، ایسا اگر کسی کو قبول نہیں تو اس خطے میں صرف بھارت ہے جس کے مفادات کے یہ امر قطعی برعکس ہے۔ ایران کے پرامن افغانستان کی صورت میں مفادات اس وقت چین ، روس اور پاکستان کے زیادہ قریب ہیں۔ ایران کو سمجھنا ہوگا کہ اس وقت بھارت کو افغانستان میں کھل کھیلنے کا موقع دینا دراصل اپنے پیر میں کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ بدخواہ چاہیں گے کہ پاکستان میں افراتفری مچے،بے چینی اس نہج کو چھوئے کہ فوج کو آنا ہی پڑے۔ اس کیلئے ننگ وطن حسین حقانی جیسے رنگین جاسوسی غبارے چھوڑے جاتے ہیں۔ سیاست، بیوروکریسی اور صحافت کے مورچے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم قوم کی حیثیت سے اپنی عزت کا پاس کریں اور دنیا میں غدر مچانے والے سے کہیں کہ اب کچھ کرنے کی باری تمہاری ہے۔ ہم پہلے ہی بہت کرچکے ہیں۔ معین نجمی نے مدتوں پہلے کہا تھا۔
تم کوئی اپنی شرافت کی گواہی لاؤ
ہم تو یہ بھی مان لیں گے کہ برے لوگ ہیں ہم

ای پیپر دی نیشن