لاہور( حافظ محمد عمر ان/نمائندہ سپورٹس) پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود کا کہنا ہے کہ ہمیں دس لاکھ یا اس سے زیادہ پیسوں والے چیف سلیکٹر کی ضرورت نہیں ہے۔ماضی میں سلیکٹرز اعزازی طور پر کام کرتے تھے۔ اب اگر ماہانہ تنخواہ پر رکھنا بھی ہے تو معاوضہ مناسب ہونا چاہیے۔احسان مانی پی سی بی کے خرچے کم کریں آفیشلز کو بھاری تنخواہیں دینے کے بجائے یہ پیسہ کھیل اور کھلاڑیوں پر خرچ کیا جانا چاہیے۔ پی سی بی چئیرمین کو بھی غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرنا ہو گا۔ وہ وقت نیوز کے پروگرام گیم بیٹ میں گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ احسان مانی کرکٹ کے انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ آئی سی سی میں ایک عرصے تک مختلف کام کرنے کے بعد اس کے صدر بنے انہیں بیرونی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لوگ انکی عزت کرتے ہیں میرے دور میں بھی وہ آئی سی سی میں ہمارے نمائندے تھے اس وقت بھی انکی وجہ سے بہت سے کام آسانی سے ہو جاتے تھے۔ بیرونی دنیا میں وہ پاکستان کا کیس زیادہ بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں احسان مانی کی بات کی اہمیت اعجاز بٹ، ذکا اشرف، شہریار خان اور نجم سیٹھی سے زیادہ ہو گی۔ انکے دور میں ملک انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا سفر بھی تیز ہو سکتا ہے تاہم اس کا انحصار پاکستان میں امن و امان کی صورتحال پر ہو گا۔ وزیراعظم پاکستان نے انہیں کرکٹ بورڈ میں نامزد کر کے اچھا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ کھیل کے انتظامی و مالی معاملات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی سربراہی کرتے ہوئے انہیں کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ سب سے پہلے کہ وہ عمران خان کی سوچ کے مطابق علاقائی کرکٹ کے فروغ لیے کیا حل نکالتے ہیں محکموں کا ملکی کرکٹ میں بڑا اہم کردار رہا ہے انہیں علاقائی ٹیموں کے سپانسر کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے۔ ملک میں ریجنل کرکٹ ایسوسی ایشنز میں عہدیداروں کی تنگ نظری، ذاتی مفادات،تعمیری سوچ اور تعصب بڑے مسائل ہیں۔ سپانسرز کو اہم کردار اور عزت دینے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ بورڈ میں احتساب بھی ہونا چاہیے۔ تمام تقرریوں و تعیناتیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ایک چئیرمین نے علاج پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے تھے یہ بورڈ کے خزانے کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ہمارے سامنے آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور بھارت کی مثالیں موجود ہیں وہاان کارپوریٹ کلچر بہت مضبوط ہے۔