" اس کا حل بھی ہوگا" یہ کہنا تھا راشٹریہ سماوی سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھگوات کا ، جن کا اشارہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور اکسائی چن کیطرف تھا جو وہ سمجھتے ہیں کہ جموں و کشمیر کا حصہ ہیں لیکن ابھی بھارت کے پاس نہیں ہیں۔ اتوار 25 اگست کو آگرہ میں ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے موصوف کا مزید کہنا تھا کہ چاہے یہ علاقے پاکستان کے پاس ہیں یا چین کے پاس، انہیں بھارت میں واپس لانا ہوگا۔اس اجلاس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ہندو جوڑوں کو یہ تلقین کررہے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں کیونکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے اور ہندوؤں کا تناسب کم ہورہا ہے۔ وہ مودی کے بارہ اگست کے اس بیان کو آگے بڑھا رہے تھے جس میں اس نے کہا تھا کہ ہمیں آزاد کشمیر کے عوام کی زبوں حالی دنیا کے سامنے لانی چاہیے اور یہی بات گلگت بلتستان اور بلوچستان عوام کے متعلق بھی دنیا کو بتانی چاہیے۔
بھارتی وزرا اور عقابی دانشور کھلے عام یہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان جو درحقیقت بھارت کا حصہ ہیں اور پاکستان ان پر غیر قانونی طور پز قابض ہے، بہت جلد بھارت کا حصہ بننے والے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک نسبتاً غیر معروف بلاگر کشور کٹی(Kishor Katti) نے ایک بڑا مضمون لکھ ڈالا ہے جو حقیقی بھارتی سوچ کا عکاس ہے گو بھارت کے نسبتاً ذمہ دار حلقے اسطرح کی بات کرنے سے احتراز کرینگے۔ لیکن اس تناظر میں جہاں آر ایس ایس کے سربراہ ، بھارتی وزیر اعظم اور وزیر دفاع اور وزیر داخلہ یہ دھمکی دے چکے ہوں کہ وہ ان علاقوں کا آزاد کرائینگے وہاں اس طرح کے خیالات کا عام ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔
قبل اس کے کہ ہم کشور کٹی کے مضمون کا خلاصہ پیش کریں ہم قارئین کو یہ یاد دلادیں کہ ہم نے گذشتہ مضمون "بھارت کشمیر اور افغانستاں" میں یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ مودی کے حالیہ اقدامات کا اصل محرک افغانستان میں امریکی انخلاء اور بحالی امن کے بعد کی صورتحال کا خوف ہے جہاں بھارت کو حاصل موجودہ اہمیت اور پاکستان میں دہشت گردی کرانے کی آزادی کا خاتمہ ہونے والا ہے اور بعد ازاں وہاں سے ممکنہ جہادی قوتوں کی کشمیر میں آمد کا اندیشہ بھی ہے۔اس کو ذہن میں رکھا جائے تو کشور کٹی کے مضمون کی دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے۔
"بھارتی اقدامات پر پاکستان کی بوکھلا ہٹ کی اصل وجہ" کے عنوان سے لکھے گئے اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ "بھارت نے کشمیر کے انضمام کا جو دلیرانہ فیصلہ کیا ہے اس کے بعد کشمیر ایک متنازعہ علاقہ نہیں رہا اور اس پیش رفت نے پاکستان کی 72 سالہ جدوجہد کو خاک میں ملادیا ہے ۔ پاکستان کو یہ اندیشہ بھی ہے کہ اس قدم کے بعد موجودہ لائن آف کنٹرول ایک بین الاقوامی سرحد میں بدل گئی ہے۔ لیکن کیا واقعی صرف اتنی سی بات ہے جس نے پاکستان کو پاگل پن پر مبنی بیانات دینے پر مجبور کردیا ہے؟ اور وہ گلا پھاڑ کر دنیا کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر ان اقدامات کو واپس نہیں لیا گیا تو دنیا کو نیوکلیر جنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔
نہیں، پاکستان کی بوکھلاہٹ کیوجہ یہ نہیں ہے۔ یہ تو ایک انتظامی سلسلہ تھا جو اس عدم مساوات کو دور کرنے کیلئے ضروری تھا جو کشمیر اور بھارت کی دیگر ریاستوں میں پیدا ہوگیا تھا۔ لیکں یہ بھارت کا آخری حل نہیں ہے۔ بھارت یہاں نہیں رکے گا۔ وہ تو پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو آزاد کرائے گا اور اس کو جموں کشمیر میں شامل کریگا۔ درحقیقت یہ ہے وہ خوف جو پاکستان کی بوکھلاہٹ کی اصل وجہ ہے۔ باوجودیکہ پاکستان کے پاس 6.5 لاکھ فوج اور نیوکلیر صلاحیت ہے لیکن یہ اس امکان کو ختم نہیں کرسکتیں جس کی وجوہات یہ ہیں: (۱) پاکستان کی کمزور معیشت ایک روائتی جنگ کو سات دن سے زیادہ برداشت نہیں کرسکتی؛ (۲) نیوکلیر انتخاب کوئی حقیقی انتخاب نہیں ہے کیونکہ وہ صرف سد راہ (deterrent) ہے جس کی نمائش کیجاسکتی ہے لیکن استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ اگر ایسا کرینگے تو خود صفحہ ہستی سے مٹ جائینگے۔ لہذا یہ حقیقی انتخاب نہیں ہے؛ (۳) پاکستان کی بین الاقوامی پوزیشن اسقدر کمزور ہے کہ ماسوائے چین کے کوئی اور ملک اس کی پشت پر نہیں کھڑا ہے۔پاکستان کی کشمیر کو بین الاقوامی مسئلہ بنانے کی حالیہ کوشش بری طرح ناکام ہوگئی جہان سوائے چین کے کسی اور نے اس کی حمایت نہیں کی۔اور یہ بھی اسوجہ سے ہے کہ چین سی پیک کو بچانا چاہتا ہے۔ (جاری)
بھارت کے خیالی پلاؤ
Sep 08, 2019