ساجد گوندل اغوا کیس، معاملہ کابینہ اجلاس میں رکھیں: جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے ایس ای سی پی کے افسر ساجد گوندل کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پر سیکرٹری داخلہ کی طرف سے مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ لاپتہ افسر کا معاملہ آج ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 17ستمبر تک ملتوی کردی ہے ۔گذشتہ روز سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد پولیس، ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے چیف کمشنر کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ چیف کمشنر کہاں ہیں؟ جس پر ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے کہاکہ وہ یو این ڈی ٹریننگ میں تھے آ رہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو یونیفارم کا احترام ہے، کیا یہ عام کیس ہے؟۔ عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے۔ دارالحکومت صرف چودہ سو سکوائر میل پر مشتمل ہے، اس چھوٹے علاقہ کے لیے آئی جی اور چیف کمشنر موجود ہیں، سب سے بڑی آئینی عدالت بھی اسلام آباد میں ہے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عدالتوں میں اسی نوعیت کی کتنی درخواستیں زیر سماعت ہیں، سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت کے کسی وزیر کے بیٹے کے ساتھ ایسا ہو تو آپ کا رویہ کیا ہو گا؟1400 مائل کی اس زمین پر کیسے ہورہا یہ سب؟ لاپتہ افراد کے تمام درخواستیں اس درخواست کے ساتھ یکجا کرونگا، وزیر اعظم قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، کیا آپ نے ان کے نوٹس میں یہ سب کچھ لایا، عدالت کو مطمئن کریں کہ کوئی ایک کیس ٹریس ہوچکا، عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو آئین کا آرٹیکل 4 با آواز بلند پڑھنے کی ہدایت کی اور کہاکہ سیکرٹری صاحب کیا آئین کی عملداری ہو رہی ہے؟ آج ایسے ہی ایک اور کیس میں وفاقی وزیر داخلہ کو طلب کیا گیا ہے، ایک اور کیس میں بھاری جرمانے عائد کیے گئے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ یہ عدالت نہیں جانتی کہ کون لاپتہ ہوگیا، مگر کوئی تو ذمہ دار ہوگا، اسلام آباد  وفاقی حکومت ڈائرکٹ زیر سایہ ہے، یہ عدالت فئیر انوسٹیگیشن میں مداخلت نہیں کریگی، عدالت کو بتائیں کیا پروگریس ہوئی ہے؟ سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ انوسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی، اور وہ تفتیش کررہے ہیں،1400 مائلز پر واقع اسلام آباد میں کوئی بندہ محفوظ نہیں، اسلام آباد میں لوگوں کا یوں لاپتہ ہونا باعث تشویش ہے، آپ وفاقی کابینہ کو آگاہ کریں کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے، عدالت نے استفسار کی اکہ کیا آپ ساجد گوندل کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوئے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اس آئینی عدالت کو کیسے مطمئن کریں گے؟ کیا یہ کیس جبری گمشدگی کا ہے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ جبری گمشدگی کمیشن کے چیئرمین نے پھر آج کیسے نوٹس لے لیا؟ کیا ان کو کسی نے بتایا کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے؟ آئی جی صاحب آپ نے چیئرمین لاپتہ کمیشن سے پتہ کیا،لوگوں کی بنیادی حقوق ہیں اور اس پر قدغن نہیں لگنی چاہیے،کیا کمیشن کے چئیرمین کو کوئی معلومات ملی ہیں کہ یہ جبری گمشدگی ہے؟کسی کو تو اس کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، عدالت کو کوئی ایک مثال بتائیں جس میں لاپتہ شہری کو بازیاب کرایا گیا ہو، آپ شہری کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام ہوئے،  سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ  اعلی سطح پر تفتیش کی جا رہی ہے،کیا پولیس کی مدد کے بغیر کوئی کسی کے زمین پر قبضہ کرسکتا ہے،یہاں مافیا دندناتے پھرتے ہیں کوئی رول آف لاء نہیں، جو ماں یہاں عدالت آئی ہے، اس ماں کا میں کیا کروں، یہ کسی کی بھی ماں ہوسکتی ہے، مجھے اندازہ ہے کہ کسی نے وزیراعظم کو اس بارے آگاہ نہیں کیا ہوگا، سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ یہ معاملہ وزیر داخلہ کے نوٹس میں لایا جاچکا ہے، چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے کہاکہ آپ یہ بات تسلیم کرے کہ آپ فیل ہوچکے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اسلام آباد میں کرائم کے بڑھتے واقعات پر لوگوں کا بھروسہ اٹھ چکا، تین دن کا وقت دیا تھا ابھی تک کچھ نہیں کیا  اگر پاکستان کے کیپٹل میں قانون کی حکمرانی نہیں تو اس کا کیا مطلب ہے۔ شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں،بتائیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہے،یہ واحد کیس نہیں، ہر شہری خود کو غیر محفوظ سمجھ رہا ہوگا، یہ مس گورننس ہے،اگر آپ 14 سو سکوائر میل میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں کر سکتے تو کہہ دیں کہ آپ فیل ہو گئے،یہ حقیقی کرپشن ہے، کرپشن کی وجہ قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے، اسلام آباد میں یہ واقعات رکنے چاہیں، اپنی ناکامی مان لیں، اپنی ناکامی کو چھپانا اور قانون نافذ نہ کرنا بھی کرپشن ہے،  چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ سے استفسارکیاکہ آپ نے کوئی لسٹ لی ہے کہ اسلام آباد سے کتنے لوگ لاپتہ ہوگئے، پچھلے دو مہینوں میں اس شہر میں کرائم کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں یہاں تو تفتیشی افسر کو تفتیش کا پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اور عدالتوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔  اس لاقانونیت کوختم کرنا ہوگا کہہ دیں کہ قانون کی حکمرانی نہیں تاکہ ہر شہری اپنی حفاظت خود کرے۔  وفاقی دارالحکومت میں ایک بھی پراسیکیوٹر موجود نہیں، متعدد بار کہا پراسیکیوٹر اپائنٹ کریں، عدالت نے درخواست گزار وکیل جہانگیر جدون پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ آپکا کام تھا درخواست دائر کرنا،  سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ ریاستی اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے، وزیراعظم کو مطلع اور آئندہ کابینہ اجلاس میں یہ معاملہ رکھا جائے گا، چیف چسٹس نے کہا کہ سیکرٹری صاحب کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک اہم شخصیت کا بیٹا لاپتہ ہو گیا  تھا؟ اور ریاست کیسے حرکت میں آئی تھی اسلام آباد کے منتخب نمائندوں کو بھی شہریوں کے تحفظ سے کوئی سروکار نہیں ایک افسر کو اغواء کر لیا گیا تین دن تک ریاست نے کچھ نہیں کیا۔ ایک پالیسی ترتیب دیں، ورنہ ہر شہری کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے ساجدگوندل کی والدہ کے گھر کون گیا؟جس پرپولیس کی طرف سے بتایا گیاکہ ڈی ایس پی ساجد گوندل کے گھر گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے صرف ایک ڈی ایس پی کو مغوی کے گھر بھیجا  اگر قانون کی بالادستی ہوتی تو کسی میں ہمت نہیں ہوتی،  چیف جسٹس نے کہاکہ درخواست گزار کی ماں کی عمر کتنی ہے؟ کون وہاں ان کے گھر گیا ہے،  عدالت نے مذکورہ حکم کے تحت معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں رکھنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
 اسلام آباد (وقائع نگار)  اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہری کی عدم بازیابی پر وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور سیکرٹری داخلہ کو عدالت میں طلب کرلیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی دارالحکومت  کے شہری عبدالقدوس کی گمشدگی کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ شہری کی عدم بازیابی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی  نے ریمارکس دیئے کہ شہریوں کا تحفظ کرنے میں وفاقی حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ اسلام آباد پولیس ناکام ہو چکی ہے تو کیا تفتیش کرنے کے لیے سندھ پولیس کو لکھیں؟۔  اٹارنی جنرل صاحب کو بتا دیں آنکھیں بند کرنے سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔ عدالت نے وزیر داخلہ اعجاز شاہ اور سیکرٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔ جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی آئندہ سماعت پر عدالتی معاونت کے لیے طلب کرلئے گئے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر وزیر داخلہ آئندہ سماعت پر جواب نہ دے سکے تو پھر وزیراعظم کو بلئایں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 16 ستمبر تک ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...