طاقت کے زور پر کشمیریوں کی آزادی نہیں چھینی جا سکتی 

 بھارت کے مظالم کیخلاف کشمیریوں اور انکے حامیوں کی آوازیں ہمیشہ اٹھتی رہی ہیں مگر بھارتی مظالم میں شدت آنے پر بھارت کے اندر سے بھی زوردار آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں اور ان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔بین الاقوامی ہی نہیں بلکہ اب تو بھارتی دانشور اور پڑھے لکھے باشعور اور سلجھے ہوئے افراد بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا غلط استعمال کر رہا ہے۔ طاقت کے زور پر کسی کی آزادی نہیں چھینی جا سکتی۔ بھارتی پروفیسر اجے کمار شرما کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے مودی حکومت نے کشمیر کے حالات سے نمٹنے کے لیے تمام تر وسائل طاقت کے استعمال پر جھونک دئیے جس سے کشمیریوں میں نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر امرجیت سنگھ کا کہنا ہے کشمیریوں نے اپنی جانیں قربان کر کے ظالم مودی حکومت کو تارے دکھائے ۔کشمیر اب ہندوستان کا کبھی حصہ نہیں رہے گا۔پروفیسر حامد خان نے کہا کہ پیلٹ گنوں کے استعمال سے سینکڑوں لوگوں کی بینائی ختم کر دی گئی نوجوانوں کو اسی طرح چن چن کر ہلاک کیا جارہا ہے جیسے فلسطین میں اسرائیلی فوجی کاروائیاں کر رہے ہیں۔بھارت کے سیاستدان بھی اب کشمیر کے مسئلے سے تنگ آگئے ہیں اور اس کے حل کی کوششیں کرنے اور پاکستان و کشمیریوں سے مذاکرات کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ بھارت کے سابق مرکزی وزیر یشونت سہنا نے طاقت پر مبنی کشمیر پالیسی کو بے سود  قرار دیتے ہوئے مودی سرکار کو باور کرایا کہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات ناگزیر ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق رہنما یشونت سنہا نے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ جموں وکشمیر کی 5اگست2019سے پہلے والی حیثیت اوربھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35Aکی بحالی کا مطالبہ کیا ہے جنہیں گزشتہ سال بھارتی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ہیں اورجموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ضرور بحال ہو گی اوردفعہ 370 اور 35A کو دوبارہ بھارتی آئین کا حصہ بنایا جائے گا۔  بھارت کی چند اعلیٰ شخصیات جن میں سابق وزیر خارجہ یشونت سہنا، سینئر صحافی بھارت بھوشن اور ایئر فورس کے سابق وائس ایئر مارشل کپل کاک پر مشتمل ایک وفد نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال معلوم کرنے کیلئے وادی کا دورہ کیا اور مودی حکومت کے حالات معمول پر ہونے کے دعوے کو دو ٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا۔ یشونت سہنا کا کہنا تھا کہ حالات نارمل نہیں۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی دیکھا کہ ساری دکانیں بند ہیں۔ کشمیریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ فون اور انٹرنیٹ پر پابندی ہے۔ کپل کاک نے موجودہ صورتحال کو یخ بستہ قید قرار دیتے ہوئے کہا کہ 80 لاکھ کشمیریوں کو یخ جیل میں رکھنے کے باوجود صورتحال کو معمول قرار دیا جا رہا ہے۔ مودی حکومت اعلانات کی بجائے کشمیریوں کے درد کو محسوس کرے۔
ساری دنیا ایک بات تو واضح طور پر جان چکی ہے کہ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور اسی ناکامی کو چھپانے کے لیے بھارتی فوجی کشمیریوں کا قتل عام کر رہے ہیں ۔ مودی سرکار کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہر کشمیری بغاوت پر اتر چکا ہے۔ بھارتی فوج بھی مودی سرکار کو طاقت کے استعمال کے بجائے سیاسی حل پر زور دے رہی ہے۔(جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن