یہ پل دو پل کی بات نہیں، نہ ہی لمحوں کا عشق ہے۔ اردو کا وجود ایک ہزار سال پہلے قائم ہو گیا تھا۔ ابتدائی نقوش تلاش کرنے بیٹھیں تو صدیاں گھنگالنی پڑ جائیں گی۔ 712 ء محمد بن قاسم کے عہد میں بھی چند الفاظ کے دُھندلے نقش میسر آ جائیں گے بلکہ اگر آریائوں کے سلسلے تک جائیں تو سنسکرت، ہندی، برج بھاشا کے توسط سے کچھ نہ کچھ ہا تھ آجاتا ہے۔ محمود غزنوی عہد میں بھی اور قطب الدین ایبک کے زمانے میں بھی اردو کے کرومو سوموز موجود تھے۔ 1329 ء میں محمد تغلق کی وجہ سے اردو کاہولہ بننے لگا۔ بعد ازاں مغلیہ عہد حکومت اور دکنی حکومتوں میں صورت گری ہونے لگی۔ محمود شیرانی نے اردو کاڈی این اے (DNA) پنجاب سے ڈھونڈ نکالا۔ اردو کا سُراغ لگائیں تو یہ زبان آپ کو صدیوں کی زنجیر سے لپٹی نظر آئے گی۔ اردو کی پیدائش کوئی ایک ڈیڑھ صدی پہلے نہیں ہوئی۔ آج کی اردو کم و پیش بارہ چودہ صدیوں سے لپٹی ہوئی ہے۔اسکی پرداخت میں صدیوں پر محیط وہ کروڑوں دن ہیں جنھوں نے اسے اپنے بطن میں پالا ہے۔ اردو صرف پاکستانیوں کی قومی زبان نہیں ہے۔ اردو سے عشق کرنے والوں میں ہندو سکھ انگریز پارسی عیسائی یہودی فرانسیسی ایرانی روسی چینی جاپانی ترکی امریکی اور جرمن سبھی ہیں اور بہت سے متشرقین کا اِس میں گرانقدر حصہ ہے۔ بہت سے متشرقین نے اردو کی قدو قامت اور زلف و گال کو دلٓاویزی بخشی ہے۔ دنیا میں زبانوں کے آٹھ بڑے خاندان ہیں۔ ان خاندان ِ السنہ میں سے اردو کا تعلق دنیا کے آخری جتھے یعنی ہندیورپی سے ہے۔ اردو اس وقت ایران جاپان چین ترکی بھارت جرمنی مصر روس جیسے ممالک میں بطور زبان اور مضمون کے پڑھائی جا رہی ہے۔ دنیا کی 98 یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے لیکن بد قسمتی کی انتہا ہے کہ جس ملک کی زبان کو ’’اردو‘‘ کہا جاتا لے وہاں اس سے سوتیلوں سے بد تر سلوک کہا جا رہا ہے۔ بھارت ہمارا دشمن سہی لیکن حق یہ ہے کہ اچھی اور سچی اردو بھارت میں بولی جا رہی ہے۔ بھارت میں کروڑوں لوگ اردو نہایت محبت، عقیدت اور فصاحت ع بلاغت سے بولتے ہیں۔ بھارت میں اردو کے لئے احترام موجود ہے۔ اُن کا بہترین ادب اردو میں پایا جاتا ہے۔ ہندی کے تمام عظیم اور اعلیٰ پائے کے ادیب شاعر نقاد محقق اور دانشور اور میں کام کرتے ہیں اور انھیں اردو سے ذرا بھی تعصب نہیں ہے بلکی وہ اردو کو سرآنکھوں پر رکھتے ہیں۔ اِس وقت بھارت کی سوا ارب آبادی میں سے 80 کروڑ بھارتی اردو سمجھتے اور بولتے ہیں۔ بھارتی فلم انڈسٹری ساری کی ساری اردو میں ہے جسے اگرچہ وہ ہندی کہتے ہیں مگر حقیقت میں سراسر اردو ہے۔ اُن کی عظیم ترین شاعری اردو کی مرہونِ منت ہے۔ انہوں نے اردو کو سوتیلا ہونے کے باوجود عزت، مرتبہ اور مان دیا ہے۔ اردو کی جتنی نشو نما بھارت میں ہوئی ہے، اُس کے تحت اُن کی دوسری بڑی سرکاری زبان ہوتی لیکن سیاسی اور مذہبی تعصبات آڑے آ گئے۔ اسکے باوجود اردو سے عشق کرنے والے، اردو کو سراہنے والے اور اردو کو فروغ دینے والے کروڑوں بھارتی ہیں جن کی محبت کو کبھی زوال نہیں آیا لیکن اردو جس ملک کی سرکاری زبان ہے جس ملک کے بائیس کروڑ افراد اسے اپنی قومی، سرکاری، مادری اور رُومانٹک زبان کہتے ہیں۔ و ہ اس زبان کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کر رہے ہیں۔ اس زبان کی تباہی بربادی میں خود ہماری سرکاری مشینری کا حصہ ہے۔ قائد اعظم نے واضح طور پر کہا تھا کہ اردو ہماری سرکاری زبان ہو گی لیکن آج 73 برس ہو گئے، دنیا انقلابات سے گزر گئی۔ پاکستان یکسر بدل گیا لیکن اردو کو سرکاری زبان نہ بنایا گیا۔ دنیا کی 98 یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ دنیا کا ہر پڑھا لکھا، اردو کو جاننے والا مانتا ہے کہ اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اردو دنیا کی ساتویں رومانوی زبان ہے۔ اردو دنیا کی چوتھی بڑی تہذیب یافتہ زبان ہے لیکن پاکستان میں اردو کی ناقدری کا یہ عالم ہے کہ 20 یونیورسٹیوں میں بھی اردو نہیں پڑھائی جاتی۔ کالجوں میں انٹر کی سطح تک اسے واجبی مضمون گردانا جاتا ہے۔ سکولوں میں اردو کو بادل ِنخواستہ پڑھایا جاتا ہے۔ دفاتر میں احساس کمتری کے مارے افسران ٹوٹی پھوٹی، مسخ شدہ تلفظ کے ساتھ انگریزی بول کر خود کو برتر ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ بیو رو کریسی کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ انگریزی بول کر خود کو کالے انگر یز سمجھنے لگتے ہیں۔ انگریز آج بھی ایسے پاکستانیوں کا تمسخر اڑاتے ہیں جو الٹی سیدھی انگر یزی بو ل کر خود کو برائون انگر یز ثابت کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ اگر انسان اپنے والدین، خاندان، ثقافت، زبان اپنی شناخت پر فخر کرنے کے بجائے دوسروں کی زبان اور ثقافت پر فخر کرے تو یہ احساس کمتری کی انتہا ہے۔