اے وطن ہم ہیں تیر ی شمع کے پروانوں میں

محمد اکرم چودھری 
پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے جسے خدا نے ہر نعمت سے مالا مال کیا ہے اور میرے وطن کا ہر شہری اور ادارہ خداداد صلاحیتوں سے لیس ہے ، کم وسائل ہوں یا مشکل ترین حالات ، خود کو منوانے کا ہنر میرے وطن عزیز کے باسیوں کو آتا ہے تو ادارے بھی پیشہ ور افراد کے مجموعہ سے تشکیل پاتے ہیں جس سے اس کے معیاراور اختیارات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ آج پاکستان کی بحریہ کا دن منا یا جارہا ہے جو کہ پاکستان کی دفاعی فورسز میں سے اہم اور سمندری حدود کی ذمہ دار ہے ۔ پاک بحریہ اپنے وطن عزیز کی سرحدی حدود کے ایک ایک انچ پر اپنی نظریں گاڑے ہوئے ہے اور دشمن کو بھر پور انداز میں اپنی حدود سے مار بگاتی ہے ، بحری بیڑوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت سے دنیا بھر کی بہترین فورسز میں اپنا مقام رکھتی ہے۔  
پاک بحریہ کی کامیابیوں کی داستانیں تو بہت طویل ہیں مگر 1965ء کی جنگ میں سمندری حدود کی حفاظت اور بھارتی بحریہ کواس کے اپنے ساحلوں تک محدود رکھنا اس قدر بڑے کام تھے جس پر پورے ملکی دفاع کا دارو مدار اسی فورس پر تھا۔ستمبر کا مہینہ آتے ہی 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا نقشہ ذہن میں آنے لگتا ہے جو معرکہ کفر و باطل کی صورت میں 6ستمبر1965ء کو اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے اچانک رات کی تاریکی میں پاکستان کی سرحدوں پر اس خوش فہمی کا شکار ہو کر شب خون مارا کہ اس کی عددی برتری کے باعث پاکستان کے لئے جنگی دفاع مشکل ہو گا۔مگر یہ بھارت کی بہت بڑی بھول تھی۔پاکستانی افواج نے پاکستانی قوم کے اعتماد پر پورا اترتے ہوئے اپنے ملک کی سرحدوں کا بھر پور دفاع کیا اور بھارتی سور ماؤں کے منصوبے خاک میں ملا دئیے۔پاکستان کی بری فوج نے لاہور، قصور، سیالکوٹ، کشمیر اور راجستھان کے میدانوں میں دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ جبکہ پاک فضائیہ نے نہ صرف اپنی افواج کی بھر پور فضائی مدد کی، بلکہ دشمن کے ٹھکانوں پر تباہ کن بمباری اور فضائی لڑائی کے دوران دشمن کے کئی لڑاکا طیارے مار گرائے۔1947ء سے لے کر 1965ء تک پاک بحریہ نے شبانہ روز محنت کے باعث اپنے آپ کو ایک بحری قوت کے طور پرمنظم کیا تھا۔جدید ساز و سامان کے حصول کے علاوہ پاک بحریہ نے اپنی سپاہ کی تربیت پر بھی بھر پور توجہ دی تھی جس کا مظاہرہ پاک بحریہ نے 1965ء کی جنگ میں بھرپور طریقے سے کیا۔یکم جون 1964ء پاک بحریہ کی تاریخ میں ایک یاد گار دن تھا۔ اس دن پاک بحریہ کی پہلی آبدوز بحری بیڑے کا حصہ بنی۔پاک بحریہ کی اعلیٰ قیادت نے اس آبدوز کا نام ’’غازی‘‘ رکھا۔اس آبدوز کے بحریہ میں شامل ہونے سے پاک بحریہ کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ ہوا اور پاکستان کاسمندری دفاع مزید مضبوط ہو گیا۔غازی بھارتی بحری بیڑوں کے لیے موت کے پیغام سے کم نہیں تھی۔طویل فاصلے تک سفر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی اس آبدوز سے پورے بھارت کا کوئی ساحل بھی محفوظ نہیں تھا۔رن کچھ کے معرکے کے بعد سے ہی حالات کشیدہ چلے آرہے تھے۔ ان بگڑے ہوئے حالات کے باعث پاک بحریہ کو جو ذمہ داریاں سونپی گئیں وہ یہ تھیں۔
۱۔  سمندری تجارت اور جہازرانی کے راستوں کو محفوظ بنانا۔
۲۔ بھارتی بحریہ کی نقل و حرکت کو محدود کرنا۔
۳۔پاکستان کی سمندری سرحدوں کی حفاظت کرنا۔
۴۔ تجارتی بحری جہازوں کی حفاظت کرنا۔
۵۔ مشرقی پاکستان میں بری فوج کی امداد کرنا۔
یہ تمام ذمہ داریاں نہایت اہم تھیں جن کو پورا کرنا ملکی دفاع کے لیے نہایت ضروری تھا۔ خاص طور پر سمندری سرحدوں کی حفاظت اور بین الاقوامی تجارتی راستوں کو ہر حال میں کھلا رکھنا نہایت ضروری تھاتا کہ تجارتی بحری جہاز اپنی تجارتی سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری رکھ سکیں۔ پاک بحریہ اس صورت حال سے بخوبی واقف تھی اور عزم رکھتی کہ پاکستان کی سمندری حدود کو ہر حال میں محفوظ رکھا جائے گا۔
چنانچہ پاک بحریہ کی اعلیٰ قیادت نے اس سلسلے میں مناسب حکمت عملی ترتیب دے دی۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ بحیرہ عرب میں رہ کر بھارتی جنگی جہازوں کا انتظار کرنے کے بجائے کیوں نہ جارحانہ طرز یعنی Proactive Approachاپناتے ہوئے بحر ہند میں جا کر بھارتی سمندری حدود کے اندر بھارتی بحریہ کو للکار ا جائے۔اس حکمت عملی کو منظور کرنے کے بعد پاک بحریہ کی اعلیٰ قیادت نے یہ کام آبدوز ’’غازی‘‘ کو سونپا کہ وہ زیر آب رہتے ہوئے کراچی کے ساحل سے لے کر مشرقی پاکستان کے چٹا گانگ ساحل تک سمندری نگرانی کرے اور اس دوران جہاں کہیں بھی بھارتی بحری بیڑوں کی موجودگی نظر آئے ان کونشانہ بنائے۔اسی طرح سے پاک بحریہ کے لڑاکا بحری جہاز بھی اپنی اپنی ذمہ داری کے علاقوں میں بحری گشت پر مامور تھے۔اس بحری حکمت عملی کے باعث بھارتی بحری ہیڈ کوارٹر میں کھلبلی مچ گئی۔ بھارتی سورما پاک بحریہ خصوصاً ’’غازی‘‘ آبدوز سے سخت خوفزدہ تھے۔ ان کو سب سے زیادہ فکر اپنے طیارہ بردار بیڑے ’’وکرانت‘‘کی تھی جو کھلے سمندر میں اس قدر بڑا ہدف تھا کہ غازی اسے چند لمحوں میں یوں تباہ کر دیتی کہ وہ اپنے ہوائی، جہازوں سمیت غرقاب ہو جاتا۔
چنانچہ بھارتی بحریہ نے ’’وکرانت‘‘ کو سات سو کلو میٹر دور جزائر انڈیمان میں لے جا کر چھپا دیا۔ بحرہند میں غازی کی موجودگی کے باعث کوئی بھارتی بحری جہاز سمندر میں نکلا ہی نہیں۔ صرف اس خوف سے کہ کہیں وہ سمندر میں نکلتے ہیں غازی کا نشانہ نہ بن جائے۔ پوری بھارتی بحریہ کو ساحلوں تک محدود رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا جسے پاکستان بحریہ نے بہترین طریقے سے پورا کیا۔بھارتی بحریہ کی دوسری بہت بڑی کامیابی ’’آپریشن سومناتھ‘‘ جسے آپریشن دوارکا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پاک بحریہ کو سونپی جانے والی ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی۔ بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو بھارتی فوج کے ساتھ ساتھ بھارتی ائیر فورس بھی خوب سر گرم عمل تھی۔ کراچی کو اہم ترین شہر ہونے کے ساتھ ساتھ بندر گاہ ہونے کے باعث بھارتی فضائی حملوں کا سامنا تھا۔
جس تواتر کے ساتھ یہ حملے کئے جا رہے تھے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی زمینی ریڈار اسٹیشن بھارتی فضائیہ کی بھر پور رہنمائی کررہا ہے۔ پاکستان نیوی کی انٹیلیجنس کو سر توڑ کوشش کے بعد یہ اطلاع ملی کی بھارت نے دوارکا کے ساحل پر ریڈار اسٹیشن قائم کر رکھا ہے جو بھارتی ہوائی جہازوں کی رہنمائی کا کام کر تا ہے۔ یہ اطلاع ملتے ہی پاک بحریہ کی اعلیٰ قیادت اس بات پر متفق ہوگئی کہ اس ریڈار اسٹیشن کو تباہ کیا جانا نہایت ضروری ہے ورنہ بھارتی ائیر فورس کے حملے بند نہیں ہوں گے۔
دوارکا، کراچی سے قریبا200سمندری میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ کام ائیر فورس کو نہیں سونپا جا سکتا تھا کیونکہ ریڈار اسٹیشن فضائی حملے سے بر وقت آگاہ ہو جاتا چنانچہ یہ کام پاکستان نیوی کو سونپا گیا۔ یہ ایک نہایت خطر ناک آپریشن تھا کیونکہ پاک بحریہ کے بیڑے کو بھارتی سمندری کے بہت اندر تک جا کر اس مشن کو پورا کرناتھا۔ حکم ملتے ہی وقت ضائع کیئے بغیر پاک بحریہ کے جنگی بحری جہاز شاہ جہان، بدر، بابر، خیبر،جہانگیر، عالمگیر،ٹیپو سلطان 7 ستمبر 1965ء کو اپنے مشن پر روانہ ہو گئے۔
ان کا مشن تھا رات کی تاریکی میں دوارکا کے ریڈاراسٹیشن کو تباہ کیا جائے جو کہ یقینا ایک نہایت مشکل مشن تھا۔پاک بحریہ کے یہ مجا ہد اللہ پرتوکل کئے اپنی جان ہتھیلی پرلئے دشمن ملک کی حدود کے اندر اس پر کاری ضرب لگا نے جا رہے تھے۔پاکستان نیوی کے ہر سیلر کے دل میں پایا جانے والا شوقِ شہادت کا جذبہ انھیں تمام خطرات کے باوجود اپنے ارادوں میں مزید مضبوط بنا رہا تھا۔تمام جہازوں نے بھارتی سمندری حدود کے اندر یہ طویل فاصلہ طے کیا اور رات گئے دوارکا پہنچ گئے۔ تمام جہاز دوارکا کے ساحل کے اتنے قریب آگئے تھے کہ پورا شہر ان کی توپوں کی زد میں تھا۔ نصف شب کو وہ مرحلہ آن پہنچا جس کا سب کو انتظار تھا اور جس کے حصول کیلئے اس قدر بڑا خطرہ مول لیا گیا تھا ٹھیک رات بارہ بج کر چھبیس منٹ پر فائر کا حکم ملا۔
سات کے سات  بحری جہازوں کی توپیں آگ اگلنے لگیں۔ چند ہی لمحوں میں دوارکا ریڈار اسٹیشن اور اسی سے ملحق بھارتی بحریہ کا ہوائی اڈہ مکمل طور پر تباہ ہوگیاتھا۔ پاک بحریہ کے تمام جہاز وں نے نہایت اطمنان سے اپنا مشن مکمل کیا اورواپسی کی راہ لی۔اس تمام واقعے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو بھارتی بحریہ کے جہاز مقابلے کیلئے سامنے آئے اور نہ ہی بھارتی ایئر فورس نے پاکستانی جہازوں پر کوئی حملہ کیا۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دشمن کس قدر بوکھلاہٹ اور خوف کا شکار تھا۔پاکستانی جہاز ڈیڑھ سو کلومیٹر بھارت کے اندر آئے اور تباہی کر کے چلے گئے مگر بھارتی افوج دبک کر بیٹھی رہیں۔پاک بحریہ کی کامیابیوں کی داستانیں یوں تو بہت طویل ہیں مگر 1965ء کی جنگ کے حوالے سے ذکر کیا جائے تو سمندری حدود کی حفاظت اور بھارتی بحریہ کواس کے اپنے ساحلوں تک محدود رکھنا دو اس قدر بڑے کام تھے جس پر پورے ملکی دفاع کا دارو مدارتھا۔دشمن کے لیے خوف کی علامت پاک بحریہ آج ایک خود مختار اور جدید سازو سامان سے لیس بحری قوت ہے جو بحیرہ عرب کے علاوہ دنیا کے دیگر بحری خطوں میں اپنی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے رہی ہے اور ملکی دفاع کی خاطر کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔پاک بحریہ کا کردار صرف 65کی جنگ میں ہی سراہاجانا چاہیے بلکہ اس عظیم فورس کے کردار کو اگر 1971کی جنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہم کس قدر پیشہ ورانہ فورس رکھتے ہیں اور دنیا ہماری فورسز کے پیشہ ورانہ کردار کی ہمیشہ سے معترف رہی ہے ۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں پاک بحریہ نے پاکستان کو بحری محاذ پر بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا اور دشمن کی پیش قدمی روک دی۔ پاکستان نیوی کی سب میرین فورس نے آگے بڑھ کر بھارتی بحریہ کے ایک جنگی جہاز 'کھکری' کو تباہ اور دوسرے جنگی جہاز 'کرپان' کو نقصان پہنچا کر  بھارتی حدود میں ہی محدود کر دیا۔ پاک بحریہ کو کئی محاذوں پر بھارتی بحریہ پر برتری حاصل رہی ہے، 1965 کی جنگ میں دوارکا میں پاک بحریہ کی کامیابی نے بھارت کے بحری اثاثوں کو ایک بھرپور نقصان سے دوچار کیا، اس معرکے میں جدید آبدوز پی این ایس 'غازی' نے بھارتی بحریہ کو بندرگاہ سے آگے ہی نہ بڑھنے دیا۔سب میرین فورس کی آبدوز 'غازی' ملکی دفاع کا اہم فریضہ ادا کرتے ہوئے 1971 میں اپنے جانبازوں سمیت شہید ہو گئی تھی۔ 6 سال بعد ہی 1971کی جنگ میں پاک بحریہ نے شمالی بحیرہ عرب میں ایک مرتبہ پھر اپنی حربی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جو دفاعی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔پاک بحریہ کی سب میرین فورس میں شامل فرانس کی تیار کردہ ڈیفنی کلاس آبدوز 'ہنگور' کو کمانڈر احمد تسنیم کی سربراہی میں دو مشن سونپے گئے تھے، پی این ایس 'ہنگور' نے پہلا جاسوسی مشن اگست 1971 میں مکمل کرنے بعد دوسرا ہنٹر کلر آپریشن دسمبر میں کامیابی سے انجام دیا تھا۔یکم دسمبر 1971 کو بھارتی سمندری حدود میں مشن پر موجود آبدوز پی این ایس ہنگور نے مغربی کمانڈ کے بھارتی جنگی جہازوں کی ریڈیو نشریات کا سراغ لگایا، اہم معلومات کے  پیش نظر کمانڈر احمد تسنیم نے یہ معلومات ریڈیو نشریات کے ذریعے ہی نیول ہیڈکوارٹر کو بھیج دیں جس کا بھارتی جنگی بحری جہازوں نے بھی سراغ لگا لیا اور بھارتی فریگیٹ 14 کے اینٹی سب میرین وارفئیر کے دو جنگی جہاز آئی این ایس کھکری اور کرپان کو پی این ایس ہنگور کو نشانہ بنانے کے لیے بھیجا گیا۔پاک بحریہ کی زیرآب فورس نے مشن جاری رکھا اور 9 دسمبر کی دوپہر کو کاٹھیا واڑ کوسٹ کے قریب کمیونیکشن کے ذریعے دو جہازوں کا پتہ لگا لیا، پاکستان کی سب میرین ہنگور نے 7 بجے شام سے تعاقب شروع کیا اور گہرائی میں جاکر ان جہازوں کو ٹارگٹ پر لے لیا۔تارپیڈو ٹیم نے دونوں ٹارگٹس کو رینج میں لیا اور  131 فٹ کی گہرائی سے جنگی جہاز 'کرپان' کو تارپیڈو سے نشانہ بنایا جس کا جہاز نے سراغ لگا لیا اور اپنی جگہ چھوڑ کر فرار ہوگیا۔
کرپان بحری میدان جنگ چھوڑ گیا جب کہ کھکری جو مغرب میں تھا اس نے آنے والے تارپیڈو کی سمت کا تعین کرلیا اور ہنگور پر حملے کے لیے بڑھا۔ہنگور کی تارپیڈو ٹیم نے ٹارگٹ کو تبدیل کرتے ہوئے کھکری کو ہدف بنایا اور دوسرا تارپیڈو فائر کردیا اور پھر زورداردھماکے سے جنگی جہاز کھکری غرق آب ہونے لگا۔بھارتی جنگی جہاز کرپان نے فوری ہنگور کو نشانے پر لینے کی کوشش کی لیکن آبدوز سے تیسرے تارپیڈو نے اس کے پچھلے حصے کو نشانہ بنایا۔بھارت کا یہ دوسرا جنگی بحری جہاز نقصان اٹھاتا ہوا میدان جنگ سے مغرب کی سمت گہرے پانیوں کی طرف فرار ہوگیا۔پی این ایس ہنگور نے شمالی بحیرہ عرب میں مشن کامیابی سے مکمل کیا اس کے بعد 4 روز تک بھارتی جہاز ، ہیلی کاپٹر اور دیگر اثاثے سمندر کی تہہ میں بارود برساتے رہے۔آبدوز غازی کے عملے کے مطابق بھارتی فضائی، بحری جہازوں اور ہیلی کاپٹرز نے 156 حملے کیے، آخرکار 4 دن تک سمندر کی تہہ میں اپنا دفاع کرتی ہوئی  پاکستانی فاتح آبدوز 'ہنگور ' کامیابی سے کراچی پہنچ گئی۔اس حربی کامیابی کے نتیجے میں دشمن کے 250 افسر اور سپاہی مارے گئے اور بھارت کا آپریشن فالکن ناکام رہا جب کہ دشمن 10 دسمبر 1971 کو میزائل حملے کے تیسرے بڑے منصوبے سے بھی باز رہا۔
پاکستان بحریہ دنیا کی بہترین سمندری افواج میں سے ایک بہترین فورس کا درجہ رکھتی ہے اور گزشتہ برسوں میںدوست اور سفارتی تعلقات کے حامل ممالک کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں بھی بھر پور شرکت کے اپنی صلاحیتوں سے دنیا کو باور کروا چکی ہے کہ پاکستان کا  خطے کے امن  اور  دفاع  میں  انتہائی اہم کردار ہے اور اپنے وطن کی عزت و آبرو کے لئے ہر حدتک جا سکتی ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاک بحریہ نے بھارت کو گزشتہ برسوں میں ہونے والی جنگوں میں عبرتناک شکست دیتے ہوئے پاکستان کی سمندری حدود کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے ۔ آج کے دن پوری قوم اپنے شہدا کی قربانیوں اور اپنے جوانوں اور بحری سپاہ کی عزم و ہمت کو سلام پیش کرتی ہے۔ جس کے جاں نثار جنگ میں اگلے موچوں پر دفاع وطن کیلئے اس کا ایندھن بنتے ہیں اور عام دنوں میں گرمی سردی طوفانِ باد و باراں اورموسموں کی شدت کے باوجود اپنی ہمت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ دن رات ہمارے لئے امن کا سائبان  مہیا کرنے پر مامور رہتے ہیں۔بلا شبہ ان کا یہ جذبہ ہم سب کیلئے احترام کے لائق ہے، جس میں آنیوالی نسلوں کیلئے بھی ایک واضح پیغام ہے۔ 

؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن