لاہور (فاخر ملک) مشترکہ مفادات کی کونسل نے سوموار کے روز دو اہم فیصلے کئے۔ ان میں ایک ہائیڈل (پن بجلی) پاور سے بجلی کے منصوبوں کو متبادل ذرائع سے بجلی بنانے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور دوسرا ویلنگ (کسی ایک ادارہ کے پاس فالتو بجلی کو موجودہ سسٹم میں لا کر کسی دوسرے ادارے کو فراہمی) کی اجازت پر عمل درآمد ہے۔ دونوں فیصلے ملکی ترقی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پلان کے حوالہ سے چاروں صوبوں کے ساتھ طویل مشاورت کی گئی ہے۔ اس پلان کے تحت مسابقتی بنیادوں پر سستے ایندھن سے بجلی پیدا کی جائیگی اور توقع ظاہر کی گئی ہے کہ نئے پلان کی منظوری کے بعد مہنگی بجلی کی پیداوار کا خاتمہ ہوگا۔ ان فیصلوں کے ضمن میں پیپکو (پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی) کے ایک سابق سربراہ بشارت چیمہ کا کہنا ہے کہ دونوں فیصلوں سے بجلی کی پیداوار بڑھنے کے امکانات ہیں بشرطیکہ عملدرآمد میں رکاوٹیں نہ ڈالی گئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کے حکومتی اور سرکاری ماہرین مستقبل کی ضروریات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں یا سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوئے یا پھر وفاق کی اکائیاں اور سیاسی اور قوم پرست گروہ ملکی مفاد پر اپنے علاقائی مفادات کو فوقیت دیتے رہے۔ ملکی مفاد پر اپنے علاقائی مفادات کو فوقیت دینے کے نتیجہ میں کالا باغ ڈیم کا منصوبہ تنازعات کا شکار ہوا۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے سلسلہ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ انرجی کی پیداوار میں کمی ملک کی مجموعی صنعتی پیداوار کو متاثر کرتی ہے جس سے معاشی ترقی سست روی کا شکار ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث پاکستان میں بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنیوں کو 260 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس کی تقسیم کا نظام ناقص ہے جس کے باعث صارف تک پہنچنے سے پہلے ہی کافی بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔ جبکہ بیس فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے اور دس فیصد بجلی کے بل ادا ہی نہیں کیے جاتے۔ بجلی بنانے والے کئی یونٹس اپنی صلاحیت کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ان دونوں فیصلوں کے ملکی معیشت پر مستقبل میں خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ہا ئیڈل منصوبے، فا لتا بجلی دوسرے اداروں کو فراہمی کے فیصلے ترقی کیلئے سنگ میل
Sep 08, 2021