یوں گماں ہوتا ہے کہ آنے والے کئی دنوں تک افغانستان ہی اس کالم کا موضوع رہے گا۔وطن عزیز میں بھی تاہم چند اہم معاملات کے بارے میں سیاسی فریقین کے مابین فیصلہ کن معرکوں کے لئے صف بندی ہورہی ہے۔ بروقت ان پر توجہ نہ دی گئی تو یہ ہمیں سنگین بحرانوں کی جانب بھی دھکیل سکتی ہے۔
الیکٹرانک مشینوں کے استعمال کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانا اس ضمن میں اہم ترین ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب ذاتی طورپر طے کرچکے ہیں کہ آئندہ انتخاب ہر صورت مشینوں کے ذریعے ہوں۔ ان کے وفادار وزراء اپوزیشن اور میڈیا کو اپنے لیڈر کی اس خواہش کی تکمیل کے لئے جذباتی لگن سے قائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔یہ کاوشیں مگر بار آور ہوتی نظر نہیں آرہیں۔
اس موضوع پر مزید گفتگو سے قبل ملکی سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے اس حقیقت کو اجاگر کرنا ضروری تصور کرتا ہوں کہ ہمارے عوام کی اکثریت راضی بہ رضا کی عادی ہے۔روزمرہّ زندگی کی مشکلات میں الجھے افراد اقتدار کے کھیل سے خود کو عموماََ لاتعلق محسوس کرتے ہیں۔ یہ لاتعلقی ہمارے ہاں برسوں تک نظر آتے ’’استحکام‘‘ کا ماحول بھی بنا دیتی ہے۔اقتدار میں بیٹھے لوگ اس کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ پراعتماد ہوجاتے ہیں۔وہ یہ سوچنا شروع ہوجاتے ہیں کہ ان کا ہر منصوبہ بآسانی مکمل ہوجائے گا۔’’اچانک‘‘ مگر کوئی چنگاری بھڑک اٹھتی ہے اور تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
ہمارے پہلے دیدہ ور یعنی فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1958میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دس برسوںتک اپنی مرضی کے بنائے سیاسی بندوبست کے ذریعے کامل اختیارات کے ساتھ ہم پر حکومت کی۔الطاف گوہر جیسے نورتنوں نے ان دس برسوں کو ’’عشرہ ترقی‘‘ کا عنوان دیا۔اس کا جشن منانے کے لئے پاکستان کے ہر شہر میں تقاریب کا طولانی منصوبہ بنایا گیا۔کراچی سے این ایس ایف کی قیادت میں لیکن طلبہ تحریک شروع ہوگئی۔بعدازاں سیاسی جماعتوں نے اس تحریک کو اچک لیا۔ایوب خان معاملات سنبھالنے کے لئے اپنے سیاسی مخالفین سے مذاکرات کو مجبور ہوئے۔ پانی مگر سر سے گزرچکا تھا۔ وہ استعفیٰ دے کر گھر چلے گئے اور اپنے ہی بنائے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا۔
1976کے وسط تک یوں محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا کوئی تگڑا مخالف نہیں رہا۔ اپنی مقبولیت اور کامیابیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے مارچ 1977میں قبل از وقت انتخاب کا اعلان کردیا۔یہ اعلان ہوتے ہی کئی ٹکڑوں میں بٹی اپوزیشن جماعتیں راتوں رات پاکستان قومی اتحاد کے نوستاروں والے پرچم تلے متحد ہوگئیں۔انہوں نے جو ماحول بنایا اس نے مارچ میں ہوئے انتخابات کی شفافیت کو مشکوک بنادیا۔اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔میں اسے دہرانا نہیں چاہتا۔کالم کی محدودات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے محض یاد دلانے پر اکتفا کروں گا کہ 2007میں جنرل مشرف مزید پانچ برس کے لئے پاکستان کے بااختیار صدر رہنے کی تیاری کررہے تھے۔ ’’اچانک‘‘ مگر عدلیہ تحریک پھوٹ پڑی اور بالآخر جنرل مشرف کو پنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔حالانکہ ان کی بنائی پارلیمان انہیں پاکستان کا باقاعدہ صدر ’’منتخب‘‘کرچکی تھی۔
مجھے خدشہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو آن بورڈ لئے بغیر عمران حکومت اگر آئندہ انتخابات اپنی منشاء کے مطابق الیکٹرنک مشینوں کے ذریعے کروانے پر بضد رہی تو پاکستان میں مارچ 1977جیسا تنائو دوبارہ نمودار ہوسکتا ہے۔اس کے نتائج فقط عمران حکومت کے لئے ہی نہیں بلکہ جمہوری نظام کی بقا کے لئے بھی سنگین تر ہوسکتے ہیں۔
فواد چودھری صاحب جن دنوں وزارتِ سائنس وٹیکنالوجی کے مدارالمہام تھے تو انہوں نے ووٹ کے لئے قابل اعتماد ٹھہرائی مشین دریافت کرلی تھی۔اس دریافت کو مگر وہ مارکیٹ نہ کر پائے۔یہ فریضہ اب ان کی جگہ لینے والے شبلی فراز صاحب نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔وہ ٹی وی پروگراموں میں اس مشین سمیت تشریف لاتے ہیں۔اس کی افادیت اور ساکھ کو سانڈے کا تیل بیچنے والے مجمع بازاروں کی طرح اجاگر کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
پیر کے روز وہ اس مشین سمیت سینٹ کی پارلیمانی امور پرنگاہ رکھنے والی کمیٹی کے اجلاس میں تشریف لائے۔میں ذاتی طورپر وہاں موجود نہیں تھا۔پارلیمان کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے نوجوان ساتھی مجھ بڈھے پر ترس کرتے ہوئے تازہ ترین سے باخبر رکھتے ہیں۔ان سب کا اصرار تھا کہ شبلی فراز صاحب سینٹ کی پارلیمانی کمیٹی کو مشینوں کے ذریعے ووٹنگ والے منصوبے کی بابت بھرپور انداز میں قائل نہ کر پائے
پارلیمانی رپورٹروں کی بتائی خبر کی مزید تحقیق کو مجبور ہوا تو ٹھوس اطلاع یہ بھی ملی کہ سینٹ کی مذکورہ کمیٹی کے اجلاس میں شبلی فرازصاحب کو سب سے زیادہ ٹف ٹائم پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر نے دیا۔فراز صاحب ان کے اٹھائے سوالات کا تسلی بخش جواب مگر فراہم نہ کر پائے۔مشتعل بھی ہوگئے۔
سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر کی جانب سے اٹھائے سوالات مگر نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔کلیدی نکتہ ان کا یہ ہے کہ ہمارا تحریری آئین اور انتخاب سے متعلق قوانین ہر اعتبار سے آزاد وخودمختار کہلاتے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیتاہے کہ وہ جس انداز میں چاہے رائے دہندگان کو اپنا ووٹ صاف شفاف انداز میں استعمال کرنے کاحق یقینی بنائے۔ فرض کیا اگر واقعتا ہمارے ہاں مشینوں کے ذریعے صاف شفاف انتخاب کی سہولت دریافت ہوچکی ہے تو اس سہولت کی افادیت اور ساکھ کے بارے میں الیکشن کمیشن کو عوام اور خاص کر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے۔موجودہ حالات میں تاہم یہ تاثر مسلسل اجاگر ہورہا ہے کہ آئندہ انتخاب کو مشینوں کے ذریعے کروانے کا منصوبہ فقط وزیر اعظم نے سوچ رکھا ہے اور وہ ہر صورت اسے بروئے کار لانا چاہ رہے ہیں۔
حکمران جماعت اگر الیکشن کمیشن سے بالا بالا اپنے تئیں کسی ایک مشین کو ’’بوہتے پانی دا اکو ای حل‘‘ کے طورپر جنونی انداز میں مارکیٹ کرنا شروع ہوجائے تو اندھی نفرت ومحبت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں شک شبے کی فضا پیدا ہونا فطری عمل ہے ۔ امریکہ ٹیکنا لوجی کے اعتبار سے ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ٹرمپ اور اس کے حامی مگر آج بھی مشینوں کے استعمال کے ذریعے ہوئی بائیڈن کی جیت کو تسلیم نہیں کررہے۔
لاطینی امریکہ کا ایک بڑا ملک برازیل بھی ہے۔ وہاں کئی دہائیوں سے انتخابی عمل مشینوں کے ذریعے مکمل کرنے کی روایت بہت طاقت ور ہے۔اس کا موجودہ صدر اسی کی بدولت اقتدار میں آیا تھا۔اب اسے نئے انتخاب کا سامنا کرنا ہے اور وہ اس میں اپنی جیت یقینی تصور نہیں کررہا۔اسے خدشہ ہے کہ اس کے سیاسی اور ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے مخالفین یکجا ہوکر اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔اس کی ہار کو ووٹنگ مشینوں کے ساتھ ’’گڑبڑ‘‘ کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے گا۔وہ اور اس کے حامی بیلٹ پیپر پر ہاتھ سے مہر لگانے والے نظام کو بحال کرنے کو بضد ہیں اور اس کی وجہ سے برازیل میں سیاسی بحران سنگین تر ہورہا ہے۔عمران خان صاحب اور ان کے وفادار وزراء مشینوں کے ذریعے ووٹنگ پر اصرار کرتے ہوئے ہمارے ہاں بھی ویسے ہی بحران کی آگ بھڑکاسکتے ہیں۔