نصیبوں والے 

198 8 کے انتخابات میں جب محترمہ بینظیر بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی مرکزی قیادت کو کراچی طلب کیا میرے تمام ساتھی سرکاری نوکری کیلئے درخواست ساتھ لائے تھے. میںنے کوئی درخواست ساتھ نہیں رکھی تھی اس سے قبل کہ وہ ساتھیوں سے ان کی دلچسپی دریافت کرتی کہ کون سی نوکری چاہتے ہو ؟ میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا ' نذیر آپ کو کوئی نوکری نہیں ملے گی میں آپ کو بھاری ذمہ داری دے رہی ہوں مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی بہن کو  مایوس نہیں کرینگے ' میں عرض کیا سسٹر نوکری میرا مزاج بھی نہیں ہے  ۔ اگلے دن اخبارت کے ذریعے معلوم ہوا کہ مجھے خیرپور ضلع کیلئے پلیسمنٹ بیورو کا انچارج بنایا گیا ہے ضلع میں دستیاب ملازمتیں دینا میرا اختیار تھا ، ڈپٹی کمشنر کے آفیس میں ایک کمرا دیا گیا تاہم میں نے چند قدموں پر واقع سرکٹ ہاوس کی عمارت میں اپنا دفتر قائم کیا ، دوسرے دن ضلعے کے تمام محکموں کے افسران کی میٹنگ بلائی اس سے قبل کہ میں میٹنگ میں جاتا میرے استاد جو آٹھویں جماعت میں کلاس ٹیچر تھے وہ آگئے۔ میں انہیں ساتھ لیکر کانفرنس ہال میں پہنچا اور ساتھ والی کرسی پر استاد منیر سولنگی کو بٹھایا ان کا نام محمد پریل تھا وہ شاعر تھے اسلیئے ان کا تخلص منیر تھا ، ضلعی افسران کو میں ہدایات دیتا رہا کہ خالی آسامیوں کی مکمل رپورٹ کل شام تک دے دیں اور مزید ملازمتیں پیدا کریں مجھے اس مہینے لوگوں کو ملازمت کے آرڈر دینے ہیں اگر کسی نے کوتاہی یا گڑ بڑ کی تو معاف نہیں کروں گا کل رات بارہ بجے تک آپ کی رپورٹ کا انتظار کروں کا وزیراعظم صاحبہ نے مجھے ذمہ داری دی ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ لوگوں کو ملازمتیں دو۔ میں مستحق افراد کے گھروں پر خود جاکر نوکری کے آفر لیٹر دوں گا تاکہ کسی کو گڑ بڑ کرنے کا موقع نہ ملے میری ترجیح ضیا آمریت میں مشکلات جھیلنے والے اور وہ مستحق افراد ہیں جن کی کوئی سفارش نہیں اور نہ ان میں طاقت ہے کہ پیسے دیکر نوکری حاصل کریں ۔ میٹنگ ختم ہوئی استاد منیر آفیس میں ساتھ آئے میرا ماتھا چومتے ہوئے کہنے لگے نذیر تم بڑے نصیبوں والے ہو خلق خدا کو روزگار دینے کی ذمہ داری  تمہاری ہے میرے بچے یہ اعزاز ہر کسی کو نہیں ملتا خالق کائنات اپنے نیک بندوں کا انتخاب کرتا ہے جو ان کی مخلوق کیلئے رزق حلال کا اہتمام کرتے ہیں تم ایک کامریڈ باپ کے بیٹے ہو اپنے باپ کا نام خراب نہ کرنا خلق خد کی زندگیوں میں آسانی کرو گے تو اللہ آپ کو اجر دے گا ، میں نے استاد محترم سے کہا اگر میں نے کوئی غفلت کی تو وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی نظروں سے گر جاوں گا جو میں افورڈ نہیںکرسکتا کیونکہ مجھے اپنی زندگی سے بھی ذیادہ عزیر محترمہ بے نظیر بھٹو کا اعتماد ہے ۔ 1990 میں  محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت برطرف کردی گئی جس کے بعد وفاق کے محکموں سے کئی ھزار نوجوانوں کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا بل آخر 1993 میں محترمہ بینظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آئیں تو انہوں نے نہ صرف برطرف ملازمین کو دوبارہ بحال کیا بلکہ  مزید لاکھوں غریبوں کو ملازمتیں دیں جنہیں 1997 میں ملازمتوں سے فارغ کرکے رزق حلال سے محروم کیا گیا 1997 سے لیکر 2007 تک وہ اعلی تعلیم یافتہ اور مستحق نوجوان بے نظیر آئیگی روزگار لائے گی کے خوبصورت خوابسمائے جینے کی آرزو رکھتے رہے  ان کی آس اور امید نراس اور نا امیدی میں بدل گئی جب 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کرکے تابوت میں گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں بھیجا گیا ، اب ان کی زندگی کی آخری کرن آصف علی زرداری تھے کوئی مانے یا نہ مانیں مگر حق بات یہ ہے سابق صدر آصف علی زرداری نے ان نوجوانوں کو نہ صرف پارلیمنٹ کے ایکٹ کیذریعے دوبارہ ملازمتوں پر بحال کیا بلکہ ان سے کی گئی نا انصافی کا ادراک بھی کیا ۔
ان سرکاری ملازمین کی زندگی میں خوشحالی آئی کسی نے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرکے عزت اور وقار کے ساتھ شادی کرکے رخصت کیا ،کسی نے مدتوں کے قرض چکائے تو کسی نے چار مرلوں پر اپنے بچوں کو گھر کی چھت دی  ، سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی آڑ میں ہزاروں سرکاری ملازمین ملازمتوں سے نہ صرف فارغ ہوچکے ہیں بلکہ ان سے خوشیوں کے لمحات کا حساب بھیمانگا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اپنی خوشیاں گروی رکھدو ، مولانا  ابوالکلام  نے کہا تھا کہ دنیا کی ہر ناانصافی عدالت کی دھیلز پر ہوئی ہے ، اگر وقت کا پیہ الٹا چلنے لگے اور استاد منیر سولنگی دوبارہ حیات ہوجائے تو ان سے پوچھوں کہ خلق خدا کو روزگار دینے والے نصیبوں والے ہیں تو خلق خدا کو روزی روٹی سے محروم کرنے والے روز محشر کوکہاں کھڑے ہونگے ؟ تم آصف علی زرداری پر جو مرضی تہمت لگاو ،انہیں خائن ثابت کرنے کیلئے پوری طاقت کا استعمال کرو مگر ان سے یہ اعزاز نہیں چھین سکتے کہ انہوں نے  عام انسانوں تک ریاست کے ثمرات پہنچائے ۔

ای پیپر دی نیشن